حکومت، عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ۔ سب ناکام

577

پاکستان کے مختلف شہروں میں لوگ سستے آٹے، خیرات کی رقم، زکوٰۃ اور دیگر چیزیں لینے کے لیے لائنوں میں لگے گھنٹوں دھکے کھا رہے ہیں۔ ایک ایک دو دو کے بعد اب اموات بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ آٹے کی لائن میں ایک آدمی مر گیا اس کی ذمے داری پی ڈی ایم حکومت پر ڈال دی گئی۔ دو آدمی مر گئے کچھ عورتیں مر گئیں پی ڈی ایم ذمے دار اور انہوں نے جواباً سارے مسائل کی جڑ عمران خان کی حکومت کو قرار دے دیا۔ لیکن کیا یہ حکومت اس سے پچھلی حکومت اور ان دونوں سے پہلے کی درجنوں حکومتیں اس صورت حال سے ان حادثاتی اموات سے بری الذمہ ہوسکتی ہیں۔ وہ یہ کہہ سکتی ہیں کہ ہم تو ذمے دار نہیں ہیں۔ اس اسٹیبلشمنٹ سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں جو سب کا چاچا ماما بن کر ملک کو دھکیل رہی ہے۔ سیاستدانوں کی خریدوفروخت کرتی ہے۔ ایک تسلسل ہے جو عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم کررہا ہے۔ مصنوعی غیر منتخب مسلط کردہ حکومتیں، اس کی ذمے دار ہیں اور سب سے بڑے ذمے دار وہ ہیں جو انہیں لاتے، نکالتے اور واپس لاتے ہیں۔ عمران خان ریاست مدینہ کے دعویدار تھے لیکن ریاست مدینہ کی الف ب سے بھی ناواقف، پیپلز پارٹی عوام اور جمہور کی دعویدار ہے لیکن وہ عوام اور جمہوریت سے کوسوں دور ہے۔ نہ عوام کے فیصلے مانتی ہے نہ جمہور کو فیصلہ کرنے دیتی ہے۔ اور مسلم لیگ ملکی ترقی کی بادشاہ ملک کو ایشین ٹائیگر اور جاپان کے مماثل بنانے کی دعویدار لیکن اب تو ان سب نے ملک کو کہیں کا نہیں رکھا ہے۔ٹائیگر تو بڑی بات ہے آئی ایم ایف کے در کا کتا بنا دیا ہے ریاست مدینہ کے والی سیّدنا عمرؓ تو خوف سے کانپتے تھے کہ فرات کے کنارے بکری کا بچہ/ کتا بھی بھوک پیاس سے مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ میں پکڑا جائوں گا۔ لیکن اس ملک میں چار سال ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت رہی اس کی ناک کے نیچے بھوک پیاس سے بھی لوگ مرے اور سرکاری اہلکاروں نے بھی لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ یہ دعویدار اب بھی ایاک نعبدو سے اپنی بات شروع کرتے ہیں۔ عوام، جمہوریت اور مساوات کی بات کرنے والی پیپلز پارٹی نے ان تمام چیزوں کو پامال کیا۔ حکمران طبقہ الگ اور غریب طبقہ الگ کردیا، قوم کی دولت پر ہاتھ صاف کرنا ان کی حکومتوں اور وزرا کا حق ٹھیرا۔ یہاں تک کہ سندھ کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں عوام کے حقوق غصب نہ کیے جارہے ہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لوٹ مار تو سب کے سامنے ہے پھر لوگ آٹے کے لیے، راشن کے لیے، زکوٰۃ کے لیے لائنوں میں نہ لگیں تو کہاں جائیں۔ جمعے کو کراچی میں بھی ایک فیکٹری کے مالک کی جانب سے زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے لوگ جمع تھے لیکن وہاں بھگدڑ مچ گئی اور 12 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس کے بعد پھر الزامات کا کھیل شروع ہوگیا۔ ذمے دار پی ٹی آئی، پی ڈی ایم، مسلم لیگ وغیرہ قرار پائے لیکن مسئلہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت میںاولین چیز عوام کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری نہیں ہے۔ کیا ترقی یافتہ ملکوں میں یہ ذمے داری ایدھی جیسی رضا کار تنظیموں کی ہے۔ یا ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والوں کے سرائے اور لنگر خانے یہ کام کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں جتنی قسم کی حکومتیں آئیں اور لائی گئیں ان سب کی بنیادی ذمے داری عوام کی خوراک، رہائش، امن، انصاف، تحفظ، روزگار کی فراہمی ہے۔ لیکن فوجی جرنیل، فوجی، سیاسی کھچڑی، فوجی کنٹرول والی جمہوریت، نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی جمہوریت بھٹو کی سول ڈکٹیٹر شپ، عمران خان کی تبدیلی سرکار یہ سب اپنے دعوئوں میں بری طرح ناکام رہے۔ کراچی میں ہونے والے حادثے، اس سے قبل آٹے اور راشن کی لائنوں میں لگ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے قتل سب کی ذمے دار یہ حکومتیں ہیں۔ ان سب کو اپنے کیے کی ذمے داری بھگتنی ہوگی۔ ہر طرح کے اختیارات کے حامل ایوب خان، ضیا الحق، جنرل مشرف، عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف، سندھ میں مراد علی شاہ وغیرہ یہ سب عوام کے قتل کے ذمے دار ہیں۔ ایسا کیوں ہوا کہ لوگ انفرادی طور پر زکوٰۃ تقسیم کرنے لگے۔ ایسا کیوں نہ ہوا کہ لوگ سرکار پر اتنا اعتماد کرتے کہ ساری زکوٰۃ اس کے خزانے میں جاتی اور وہ ہر شہری کی دیکھ بھال کرتی ۔لیکن ایک دن کے لیے بھی سرکار پر عوام کو اعتماد نہیں رہا ۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے جرنیل ہوں یا لمبی زبانوں والے سیاسی حکمران ۔ کسی پر قوم کو اعتبار نہیں رہا ۔ ورنہ نواز شریف کی قرض اتارو ملک بچائو مہم کامیاب ہو جاتی اور آج آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر بھیک نہ مانگنا پڑتی ۔ ان سب ناکام لوگوں ،گروہوں ، اداروں کا نقصان سرا سر عوام کو بھگتنا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرنا چاہیے ۔ حکمرانوں کو تو کسی قسم کی تجویز دینے کی ضرورت نہیں ۔ا ن کے لیے سب برابر ہے ۔ لیکن عوام اگر غور کریں تو اب زکوٰۃ کی تقسیم راشن وغیرہ پہنچانا ان کے بس کی بات نہیں ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مستحقین اور سفید پوش لوگوں کو پہچاننا ان کے لیے بھی مشکل ہے اور حکمرانوں کے لیے تو ناممکن ہے ۔ اس کا حل یہی ہے کہ الخدمت جیسی تنظیمیں جن کا نیٹ ورک گلی محلے میں پھیلا ہوا ہے عوام اپنے عطیات ، زکوٰۃ وغیرہ ان کو دیں وہ سفید پوش لوگوں تک ان کی عزت نفس مجروح کیے بغیر پہنچاتی ہیں ۔ یہی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان حکمرانوں کی ناکامی کے اعلان کی بھی ضرورت نہیں گلی گلی ان کو ناکامیوں کے اشتہار لگے ہوتے ہیں ۔ ٹوٹی سڑکیں ، خراب گٹر، اندھیری شاہراہیں، آوارہ کتے ، لٹیرے پولیس والے، بکائو میڈیا ، عدلیہ اور وردی اور بغیر وردی والے لٹیرے… ان سب کے ہوتے ہوئے کسی اورکو آنے کی کیا ضرورت ہے ۔