مسلم کش بلڈوزر پالیسی

481

مقبوضہ جموں و کشمیر میں چند ہفتوں سے بل ڈوزر سے گھروں کے منہدم یا زمین بوس کرنے کی ویڈیوز دیکھ کر یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ عنقریب آبادی کا ایک حصہ سڑکوں یا گلی کوچوں میں پناہ لے رہا ہوگا یا بقول ایک مقامی صحافی ’روہنگیا مسلمانوں کی مانند کنٹرول لائن کی جانب بھاگ رہا ہو گا، اس عمل پر عوامی حلقوں میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے کہ ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت مقامی لوگوں کو زمین سے بے دخل کرکے یہاں غیر کشمیریوں کو بسائے جانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے خطے کے 20 اضلاع میں مقامی انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے کہ وہ سرکاری زمین پر املاک یا تجاوزات کو گرا کر زمین واپس حاصل کرنے کی کارروائی پر سختی سے عمل کرے۔ جموں و کشمیر کی اس دل دوز کہانی کا خاتمہ ہی نہیں ہو رہا ہے جو سامراجی طاقت نے 1847 میں 75 ہزار نانک شاہی لے کر انسانوں اور ان کی زمین کی خرید و فروخت سے شروع کی تھی جس پر حفیظ جالندھری نے ’پچھتر لاکھ کا سودا‘ نظم لکھی تھی
ملک، ملت، قوم، مال و جہاں پچھتر لاکھ میں
ہاں پچھتر لاکھ میں، ہاں ہاں پچھتر لاکھ میں
تاریخ بتاتی ہے کہ پنجاب کے مہاراجا رنجیت سنگھ اور ان کے درباری کمانڈر مہاراجا گلاب سنگھ کے درمیان تلخی نہ ہوئی ہوتی تو شاید گلاب سنگھ نہ اس خطے کے مالک بن پاتے، نہ کشمیر کا سودا ہوا ہوتا اور نہ اس سرزمین کا جھگڑا اتنا طول کھنچتا۔ مہاراجا دور میں پنجاب کے تاجروں کا کشمیر آنا جانا رہتا تھا اور ان میں سے بعض یہاں سکونت بھی اختیار کرنے لگے تھے۔ مہاراجا کے دربار میں جموں کے ڈوگروں اور کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی تھی لہٰذا انہوں نے پنجابیوں کو روکنے کے لیے مہاراجا پر شہریت کا خصوصی قانون لاگو کرنے پر زور ڈالا۔ یہی قانون 47 کے بعد الحاق ہندوستان کا حصہ بنا، جسے پانچ اگست 2019 کو ختم کیا گیا۔ 13 جولائی 1950 کو نیشنل کانفرنس کی پہلی حکومت نے ’نیا کشمیر‘ کے اپنے روڈ میپ میں زرعی اصلاحات دیں اور اس سے متعلق ایک قانون لاگو کیا تھا جس کی رو سے کاشت کاروں اور بے گھر خاندانوں کو تقریباً اس ساری زمین کا مالک بنا دیا گیا جو ڈوگرہ دور میں زیادہ تر غیر مسلموں کی جاگیریں تھیں۔ 1950 میں جموں کشمیر کی 22 لاکھ ہیکٹر اراضی پر محض 396 جاگیرداروں کا قبضہ تھا جبکہ سات لاکھ کشمیری مسلمانوں کے پاس کوئی زمین یا جائداد نہیں تھی اور جموں میں ڈھائی لاکھ نچلی ذات والے ہندو بے گھر اور بے آسرا تھے۔ نیشنل کانفرنس کو اندرونی خود مختاری اور زرعی اصلاحات کے دونوں اقدام دہلی سرکار میں موجود بعض سیاست دانوں اور چند با اثرکشمیری پنڈتوں کو پسند نہیں آئے تھے، جس کی سزا اس خطے کو پہلے نو اگست 1953 کو اور پھر پانچ اگست 2019 کو دی گئی۔ بی جے پی جموں و کشمیر کو واپس ڈوگرہ دور میں لے جانا چاہتی ہے اور بلڈوزر سے زمین اور جائداد چھیننا اسی پالیسی کا تسلسل ہے سابق مقامی حکومت نے ایک اور قانون سازی ’روشنی ایکٹ‘ کے تحت ان تمام افراد کو سرکاری زمین کا مالک قرار دیا، جن کے پاس گھر یا زمین نہیں تھی یا جہاں پر گھاس چرائی کی زمین خالی اور بے کار پڑی تھی۔ ’روشنی ایکٹ‘ کے تحت زمینوں کی تقسیم اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی پر عدلیہ نے کئی سوالات اٹھائے اور حکومت سے اس کی جانچ کرنے کی سفارش کی تھی۔ مقامی انتظامیہ ناجائز قبضے اور تجاوزات کے خلاف بل ڈوزر استعمال کر رہی ہے اور اس کا ہدف بد دیانت سیاست دان اور لینڈ مافیا ہے مگر عوامی حلقوں کے مطابق بیش تر علاقوں میں غریب غربا کے مکان یا جھونپڑیاں اس کی زد میں لائی جارہی ہیں۔ غریب متاثرین محتاط انداز میں ان کارروائیوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ سیکورٹی فورسز بغیر کسی وجہ کے انہیں حراست میں لیں گی اور پھر اپنے عزیزوں کا پتا لگانے میں ہمیں کافی دشواریاں پیش آتی ہیں بلڈوزر پالیسی کے خلاف احتجاج اور بھوک ہڑتال جاری ہے بل ڈوزر پالیسی خطے کا مسلم کردار ختم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے کشمیریوں کی زمین پر انڈیا کے غیر مسلموں کو بسانے کا عمل جاری ہے ہندوتوا نے ہندو راشٹر کا جو خواب دکھایا ہے وہ اگلے پارلیمانی انتخابات کے اسی بیانیے پر منحصر ہے۔