حقوقِ نسواں اور رمضان

880

حقوقِ نسواں تو سال کے بارہ مہینوں میں لاگو ہونے چاہئیں مگر خصوصی طور پر رمضان المبارک میں خواتین کے حقوق کا خیال اس لیے آتا ہے کہ یہ ماہ مبارک کمائیوں کا مہینہ ہے جہاں پھل فروش بھی اضافی کمائی کرتا ہے اور سبزی فروش بھی، جہاں آٹا، چینی، دال، چاول، شربت کے ذخیرہ اندوز دل کھول کر مارکیٹ میں اپنا مال سال کے مہنگے ترین داموں فروخت کرتے ہیں وہیں مساجد میں دن کی پانچ نمازوں کے دوران مردوں اور لڑکوں بچوں کا ہجوم بیکراں ربّ العالمین کی بے پایاں رحمت سے مستفید ہونے کے لیے جوق در جوق صف آرا ہوتا ہے اور عشاء کی نماز کے ساتھ ہی تراویح میں بعض مقامات پر خواتین اور بچیوں کی نمایاں شرکت بھی نظر آتی ہے مگر یہ تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے جسے آٹے میں نمک کے برابر قرار دیں تو بیجا نہ ہوگا جتنی زیادہ تعداد ہماری خواتین کی ہے اگر وہ سب تراویح پڑھنے کے لیے تشریف لے آئیں تو جگہ کم پڑ جائے مگر یہ بھی ہمارا موضوع نہیں خواتین کے لیے تو ویسے ہی نرمی ہے اور ان کی عبادت کے لیے گھروں کے حجروں کا ذکر ملتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی طے ہے کہ اگر وہ مساجد میں نماز ادا کرنا چاہیں تو انہیں منع نہیں کیا جا سکتا بلکہ مساجد میں ان کے لیے الگ حصے مختص ہونے چاہئیں مگر ہمارا موضوع یہ بھی نہیں ہم تو رمضان المبارک میں خواتین کے ان حقوق کی بابت بات کر رہے ہیں جو ہر کس و ناکس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حاصل ہیں۔ نماز پنجگانہ کی ’’بر وقت‘‘ ادائیگی نوافل، ذکر اذکار کے اوقات اور اپنی زکوٰۃ وخیرات اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کے اختیارات کے حقوق۔ یہ تمام تر حقوق جو ربّ العالمین کی جانب سے خواتین کو ودیعت کر دیے گئے ہیں مگر ان کی اس معاشرے میں بری طرح پامالی کی جاتی ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان حقوق کے حوالے سے خواتین کو نہ تو شعور دیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی پامالی کا ادراک ہوتا ہے خواتین جہاں گھروں سے باہر چادر اور چار دیواری کا تحفظ مانگ رہی ہوتی ہیں وہیں کبھی انہیں یہ کہتے نہیں دیکھا
کہ مساجد میں نماز کی ادائیگی میرا بھی حق ہے۔
میں اپنے زیور کی زکوٰۃ اپنی مرضی سے دوں گی۔
(کیونکہ اس میں بھی تخصیص کی جاتی ہے کہ کہیں اپنے میکے والوں کو نہ دے دے جبکہ اگر مرد کے لیے اہم ہے کہ وہ زکوٰۃ قریب ترین مستحقین کو دیں تو عورت کے لیے بھی اس کے رحمی رشتوں کا معاملہ ایسا ہی ہے)۔
مجھے نفلی عبادات کے لیے آزادی دی جائے۔
رمضان المبارک میں خواتین کی عبادات کے لیے الگ سے اہتمام لازم کیجیے۔
ثناء سفینہ اور گل احمد بھلے سے نہ دو مگر سحر وافطار سے ایک گھنٹہ قبل سکون سے دعائیں مانگنے کی رعایت دو۔
میرا صدقہ وخیرات میری مرضی۔
میں روزے کے دوران اضافی کام نہیں کروں گی۔
(جہاں ہر مقام پر رمضان المبارک میں اوقاتِ کار مختصر کر دیے جاتے ہیں مگر گھر میں کھانے پکانے پر ذمے دار خواتین (ماں، بہن، بھابی، بیٹی، بیوی) کے لیے کام کے اوقات کار عام دنوں سے بڑھا دیے جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام باتیں جو اسی معاشرے میں رائج ہیں اور کھلے عام حقوقِ نسواں کی پامالی کے زمرے میں شامل ہوتی ہیں لیکن آج تک ہم نے ان پر کسی خاتون کو آواز اٹھاتے نہیں دیکھا حالانکہ رمضان المبارک کے ایام تمام تر انسانوں کے لیے اہم ہیں اللہ کے گھروں (مساجد) کو آباد کرنا، کثرتِ اذکار، کثرتِ سجود، کثرتِ نوافل ودیگر وظائف مرد و عورت سب کے لیے اہم ہیں بلکہ عورتوں کو ان کے اہتمام کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ جب ان عورتوں کو نبی کریمؐ کی اس حدیث ِ مبارکہ سے ڈرایا جاتا ہے کہ جس میں جہنم میں عورتوں کی کثرت کا ذکر ہے تو کیا خواتین کو ضرورت نہیں کہ اس واضح ترین حدیث کی روشنی میں اپنے اعمال کی بہتری کے لیے رمضان کریم کے روزوں اور دیگر عبادات سے فائدہ اٹھا کر جہنم سے نجات کا سودا کر لیں؟ انہیں دن میں دس بار جہنم سے ڈرانے والے ان کے گھروں کے مرد انہیں جنت الفردوس کی کمائی کے کتنے مواقع فراہم کرتے ہیں؟
خواتین نے تو ہمیشہ رمضان المبارک میں گھر کے مردوں اور بچوں کی صحت وایمان کی آبیاری کی فکر کی ہے اور عملی طور پر انہیں مقدور بھر اضافی کھانے کے لوازمات سے لیکر تراویح ونماز کے لیے وقت اور مناسب سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس معاشرے کے مردوں نے کیا ان کی اضافی نمازوں، ذکر اذکار، تلاوتِ قرآن اور تراویح کے لیے کبھی اہتمام کیا؟ انہیں اضافی مواقع فراہم کیے؟
اگر ان کے جوابات مثبت ہیں تو آپ بہت ہی نیک اور اللہ کے پسندیدہ مردوں میں سے ہیں اللہ آپ سے راضی ہے اور اگر ان کے جوابات منفی ہیں تو خطبہ حجتہ الوداع میں نبی کریمؐ کی عورتوں سے متعلق واضح تنبیہ یاد کر لیجیے جس میں عورتوں کے حقوق کے معاملے میں ڈرتے رہنے کو کہا گیا ہے۔ اس ضمن میں یاد رکھیں کہ اچھا کپڑا اور کھانا ہی حقوق نسواں نہیں ہے بلکہ ان کی فکر آخرت سر فہرست حق ہے جو اگر یہ معاشرہ اور مرد ادا نہیں کرتے تو پھر حشر کے میدان میں اپنا حشر یاد رکھیں کہ بے شک اللہ پاک بہت دانا، علیم وخبیر ہے وہ سب جانتا ہے کہ عورت کسی نیکی میں اس لیے پیچھے رہ گئی کہ اس کے گھر کے مردوں کی ان کے رشتے داروں کی فرمائشیں پوری کرنے کی دوڑ میں سرگرداں تھی اور اپنے لیے کچھ نہ کر سکی یہاں تک کہ صلہ رحمی بھی اس ڈر سے نہ کر سکی کی میکہ پرستی کا لیبل نہ لگ جائے (جو عورت پر سے کبھی اُترتا ہی نہیں) وہ مرد کے رحم کے رشتے جوڑتے اور نبھاتے ہوئے ہی رخصت ہو گئی تو بے شک وہ علیم و خبیر اللہ سب جانتا ہے۔
یہی صورتحال ان مردوں کے لیے بھی کہ جو بیگمات کے ڈر سے اپنے قرابت داروں کے حقوق ادا نہیں کر پاتے کہ بیگم ناراض ہو جائے گی وہ بھی اس حوالے سے محاسبہ کر سکتے ہیں کہ اگر بیگم کو ان کی قبر میں نہیں جانا تو ان کو بھی بیگم کی قبر میں نہیں جانا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں میں مردو زن کے لیے یکساں احکامات ہیں اور رو گردانی کرنے اور کروانے والوں کے لیے سزائیں بھی یکساں ہوں گی کہ وہ ربّ العالمین بہترین منصف بھی ہے۔ سو اس رمضان المبارک عہد کر لیجیے کہ اپنی آخرت کی تیاری کے لیے وہ تمام ’’حقوقِ نسواں‘‘ مانگیں گے جو مردوں کو حاصل ہیں جہاں خواتین کو حاصل نہیں اب ان شاء اللہ خواتین کو بھی دیں گے تاکہ روز محشر کسی پر کسی کے حقوق کا بوجھ نہ ہو جس طرح مرد حضرات رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے ہیں کوشش کیجیے کہ کم از کم اتنے ہی حقوق خواتین کو ضرور دیں انہیں اضافی پکوانوں، کپڑوں عید کی تیاریوں میں ضائع ہونے سے بچا کر اپنی آخرت کا زاد راہ، اپنی قبروں کا نور اپنے میدان حشر کی ٹھنڈک اور سرور، اپنی آسان ترین موت کے پروانے کا حصول ممکن بنا سکیں۔ اپنے ان مقدس ایام کو صرف اضافی پکوانوں سے نہیں قرآن کریم کی تلاوت، ذکر، اذکار، نوافل، صدقات و خیرات کی کثرت سے یاد گار بنا لیجیے اٹھیے اور اپنے ان حقوق کے لیے آواز بلند کیجیے جو آپ کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا باعث ہیں کیا آپ کامیاب خواتین کی فہرست میں شامل نہیں ہونا چاہتیں؟