متناسب نمائندگی کا طریقۂ انتخابات

573

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں لیکن اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا وہ کرپٹ اور فرسودہ انتخابی نظام ہے جس کے باعث ہماری سیاست اور جمہوریت گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے چند لوٹوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہتی ہے۔ ان ہی لوٹوں کو مخاطب کرتے ہوئے بابائے قوم نے انہیں کھوٹے سکے قرار دیا تھا جب کہ ان ہی لوٹوں کی سیاسی قلابازیوں کو دیکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستان کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے باپو گاندھی جی اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتے جتنے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کے ابتدائی گیارہ سال میں سات وزرائِ اعظم کے برسراقتدار آنے، نوسال تک ملک کا آئین تشکیل نہ پانے اور بالآخر ملک کے قیام کے محض گیارہ سال بعد خدا خدا کرکے بننے والے 1956 کے پہلے آئین کی معطلی اور ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذکے ساتھ ہی پاکستان میں سیاسی اور جمہوری اداروں کی کمزوری اور عدم استحکام کا آغاز ہوگیا تھا۔
ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے جہاں اس نوزائیدہ مملکت کو سیاسی اور آئینی بحران سے دوچار کیا وہاں ان ہی وجوہ کے باعث قیام پاکستان کے محض 24سال بعد عالم اسلام کا یہ سب سے بڑا ملک دولخت بھی ہوا۔ البتہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد ایک امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب ہم سیاسی بلوغت کے راستے پر چل پڑیں گے لیکن اس دور میں بلوچستان اور صوبہ سرحد کی منتخب حکومتوں اور یہاں برسر اقتدار جماعتوں کے خلاف جو غیرجمہوری رویہ اپنایا گیا اس کا نتیجہ جلد ہی ملک میں تیسرے مارشل لا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی صورت میں برآمد ہوا۔ سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزورکرنے کے لیے جلتی پر تیل کا کام جنرل ضیاء الحق کے غیرجماعتی انتخابات نے انجام دیا جب کہ بعد کے ادوار میں چھانگا مانگا کی اصطلاحات اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ جیسی راتوں رات جنم لینے والی پارٹیوں کی وجہ سے ہمارا سیاسی نظام مزید کمزور یوںکا شکار ہوا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر اور کمزور جمہوری اقدار رکھنے والے ملک میں جمہوری روایات اور منتخب اداروں کی عزت وتوقیر میں اضافہ کیونکر ممکن ہے اور عوام کی وہ غالب اکثریت جو جمہوری تماشوں سے روز بروز بدظن ہوتی جارہی ہے آخر ان کا جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور منتخب اداروں پر اعتماد کیسے بحال کیا جاسکتا ہے۔ جب تک ہم اس بنیادی مسئلے کا کوئی قابل عمل حل نہیں ڈھونڈیں گے تب تک قائد اعظم اور علامہ اقبال کے وژن کے مطابق پاکستان کا ایک مستحکم جمہوری ملک بننے کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ سیاست اور جمہوریت نے تمام انسانی معاشروں میں وقت کے ساتھ ساتھ ان معاشروں کی ضروریات اور حالات کے مطابق بتدریج ترقی کی منازل طے کی ہیں لیکن ہم چونکہ من حیث القوم ہر مسئلے میں شارٹ کٹ مارنے کے عادی ہیں اس لیے سیاست اور جمہوریت جیسے سنجیدہ امور میں بھی ہم نے ہمیشہ غیرسنجیدگی کے مظاہرے کیے ہیں جن کے نتائج ہم پچھلے 75سال سے سیاسی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر سیاسی جماعتیں یہ رونا روتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ وہ مروجہ سیاسی انتخابی نظام میں اگر کچھ اصلاحات کرنا بھی چاہتی ہیں تو وہ اپنے ہی منتخب ارکان کے دبائو اور بلیک میلنگ کے باعث کچھ نہیں کر پاتیں خاص کر کسی بھی قانون سازی کے مرحلے پر اپنی ہی جماعتوں کے ارکان اپنی ہی پارٹی قیادت کو اپنے مطالبات کے لیے بلیک میل کرنے میں نہ توکوئی شرم محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اس عمل کو جمہوری روایات کے خلاف تصور کیا جاتا ہے مجبوراً وہی ہوتا ہے جس کے مناظر ہم وقتاً فوقتاً اپنی سیاست میں لوٹا کریسی اور سیاسی بلیک میلنگ کی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں۔ درحقیقت اگر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں لوٹا کریسی اور الیکٹیبلز کی بلیک میلنگ سے تنگ ہیں اور ان سے واقعی نجات چاہتی ہیں تو اس کا آسان حل وطن عزیز میں متناسب نمائندگی کی طرز پر انتخابی اصلاحات کا نفاذ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ متناسب طرز کا انتخابی نظام دنیا کے اسی سے زائد ممالک میں نہ صرف رائج ہے بلکہ اس کے باعث ان ممالک کا منتخب جمہوری نظام کامیابی سے چل بھی رہا ہے۔
متناسب نمائندگی ایک ایسا انتخابی نظام ہے جس میں لوگ اپنے علاقے کے کسی جاگیردار، وڈیرے، سیاسی رسہ گیر، سرمایہ دار، بدمعاش یا الیکٹبلز نہیں بلکہ پارٹی منشور اور پارٹی لیڈر کو ووٹ دیتے ہیں اور اس طرح جس پارٹی کو جتنے مجموعی ووٹ مل جاتے ہیں وہ اپنے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اپنے ارکان منتخب اسمبلی میں بھیجتی ہے۔ یہاں اس نظام پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس سے پارٹی راہنما ڈکٹیٹر بن کر پارٹی کے مختار کل بن جاتے ہیں جس سے ملک میں جمہوری رویے پروان چڑھنے کے بجائے مزید کمزور ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مثال ہماری اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر ارکان کی الاٹمنٹ میں پارٹی قائد کے آمرانہ کردارکی بھی دی جاتی ہے۔
اس مسئلے کا ایک قابل عمل اور آسان حل یہ ہوسکتا ہے کہ الیکشن میں ایک ووٹر ایک ووٹ کے اصول کے مطابق ہر ووٹر ووٹ تو پارٹی ہی کو دے لیکن ہر پارٹی کو ہر حلقے یا کم از کم پچاس فی صد حلقوں پر اپنے امیدواران بھی کھڑے کرنے کا پابند بنایا جاسکتا ہے جس سے اگر ایک طرف پول شدہ ووٹوں کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا تو دوسری جانب اس سے جہاں ملک کی سیاسی جماعتیں مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ملک گیر جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی وہاں اس سے فرقہ وارانہ، لسانی اور علاقائی جماعتوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی جب کہ تیسری جانب اس سے پول شدہ کوئی ایک ووٹ بھی ضائع نہیں ہوگا۔ اس نظام کو مزید موثر بنانے، ووٹرز کی تعداد بڑھانے اور پارٹی قائد کی آمریت کا راستہ روکنے کے لیے ہر پارٹی کو مجموعی طور پر حاصل ہونے والے ووٹوں کی شرح سے جتنی نشستیں الاٹ کی جائیں گی یہ نشستیں پارٹی کے ان امیدواران میں تقسیم کی جا سکتی ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے اپنے حلقے میں نمبروائز سب سے زیادہ ووٹ لیے ہوں گے اس سے نہ صرف پارٹی امیدواران کے درمیان زیادہ سے زیادہ ووٹ لینے کے لیے مثبت مسابقت کا جزبہ پروان چڑھے گا بلکہ اس سے پارٹی اور مجموعی طور پر ووٹنگ کی مجموعی شرح میں بھی اضافہ ہوگا جب کہ اس فارمولے سے امیدواران کی نامزدگی کے حوالے سے پارٹی قائد کی ممکنہ آمریت کا سد باب بھی ہوسکے گا۔