ہر لیڈ کرنے والا لیڈر نہیں ہوتا

639

گفتگو کے دوران زبان کا پھسلنا عام بات ہے۔ مگر دماغ کی پھسلن کو زبان کی پھسلن قرار دینا ایک خطرناک امر ہے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی زبان چلتی کم ہے اور پھسلتی زیادہ ہے۔ موصوف کے تازہ بیان پر غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے عمر کے ساتھ دماغ کی پھسلن بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ فوج کے ساتھ ہماری کوئی لڑائی نہیں۔ ’’یہ لوگ‘‘ ملک کی دولت لوٹ کر باہر لے جاتے ہیں۔ شیخ رشید آئی ایم ایف سے مذاکرات پر تبصرہ بلکہ تبرا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان پر کوئی بھی یقین کرنے پر آمادہ نہیں۔ کیونکہ یہ مسلسل دروغ گو ہیں۔ شیخ جی قوم جانتی ہے کہ آئی ایم ایف کس کی بد گمانی، کس کی غلط بیانی کے باعث بارودی سرنگ بن گئی ہے۔ کوئی بھی ہوش مند شخص بارودی سرنگ پر پاؤں نہیں رکھتا۔ جہاں پاؤں رکھنا باعث خطر ہو وہاں کون ہاتھ رکھ سکتا ہے۔ اگر آپ کی حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے پر عمل کرتی اور عہد کا احترام کرتی تو آئی ایم ایف کو گو مگو کی کیفیت سے دو چار ہونا نہیں پڑتا۔ جہاں معاملہ دو چار کا ہو وہاں تین پانچ کا عمل ناگزیر ہو جاتا ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عوام عمران خان کی محبت میں جنون کی حد بھی پار کر چکے ہیں۔ مگر ٹی وی اینکرز جانتے ہیں کہ عمران خان سے عوام کی محبت زوال پزیر ہو رہی ہے۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے بتیس فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔ مگر ضمنی الیکشن میں بیس فی صد ووٹ ملے۔ اگر ان کے مقابلے میں کوئی معروف سیاست دان الیکشن لڑتا تو کیا ہوتا یہ کہنا لاحاصل ہے کیونکہ شیخ رشید کی سیاست میں نہ مانوں کے اصول پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم کی چشم نگراں عدالت عظمیٰ کی جانب دیکھ رہی ہے۔ شاید شیخ جی کو یہ نہیں معلوم کہ قوم کی چشم نگراں عدالت عظمیٰ کی طرف نہیں عظمیٰ بیگم کی نگرانی کر رہی ہے۔ البتہ شیخ جی کو اس حقیقت کا ادراک ضرور ہو گا کہ عدلیہ کو موجودہ مقام تک کس نے پہنچایا۔ عدلیہ کو ڈر خوف کا مریض کس نے بنایا۔
امریکی صدر کو عدالت بلاتی ہے تو وہ کرائے کے لوگوں کے ساتھ عدلیہ نہیں جاتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عدلیہ بے حرمت ہو جائے تو ملک کی توقیر بے حرمتی کی وبا میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جب صدر مملکت کو عدالت طلب کرتی ہے اور جرم ثابت ہونے پر عدالت ہی میں گرفتا ر کر لیا جاتا ہے مگر وہاں کے عوام اور میڈیا کوئی طوفان بدتمیزی نہیں اٹھاتا۔ اور آپ کیا کرتے ہیں شیخ جی؟ یہی ناں کہ آپ نے تو پاکستان ہی کو عمران خان قرار دے دیا۔ آپ کی نظر میں عمران خان ہی پاکستان ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب آپ آصف علی زرداری کو سیاست کی یونیورسٹی قرار دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر سیاست سیکھنا ہے تو زرداری کے حضور زانوئے تلمذ طے کرو۔ آپ کو عمران خان کے سوا کوئی لیڈر ہی نہیں دکھائی دیتا۔ مگر عوام جان چکے ہیں کہ ہر لیڈ کرنے والا لیڈر نہیں ہوتا۔ اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش ممکن نہیں کہ عمران خان نے قوم کو نہیں قوم دشمن قوتوں کو بیدار کیا ہے۔ چاند کا تھوکا منہ پر آئے یا نہ آئے، مگر زمینی اور معروضی حقائق پر تھوکا منہ پر ہی گرتا ہے۔ سو یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ شیخ رشید کے حضرت اعلیٰ نے لوگوں کو بیدار نہیں بیزار کیا ہے۔
شیخ جی کی اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ قوم مرنے مارنے پر کمر بستہ ہے۔ مگر کمر کسی کی ہے اور بستہ کسی اور کا ہے۔ اور یہ ساری کارستانی اس بستہ بند کی ہے کہ جو گولی نہ لگنے کے باوجود کئی ماہ سے زخمی ہے۔ جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں شیخ جی کی عقل بھی ٹھکانے آرہی ہے۔ اور ٹھکانے پر پہنچ کر سب ہی شیر ہو جاتے ہیں۔ سو موصوف بھی شیر بلکہ شیر ببر بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مل بیٹھ کر الیکشن کا فیصلہ کرنا بہتر فیصلہ ہو گا۔ بالکل درست کہا ہے کیونکہ مکالمہ ہی ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ مگر جو شخص اپنے کہے کو مستند سمجھنے کی بیماری میں مبتلا ہو وہ مکالمے کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا۔ وہ اس حقیقت کا ادراک بھی نہیں کر سکتا کہ آسمان کبوتروں سے خالی ہو جائے تو فضا میں کائیں کائیں کی باز گشت ہی گونجتی رہتی ہے۔
خدا جانے یہ معاملہ اظہار خوشی کا ہے کہ نہیں کہ ایران اور سعودیہ عرب ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے پاکستان سے سعودی عرب کو بدظن اور بد گمان کرنے میں تو کوئی کسر نہیںچھوڑی۔ سعودی عرب کے بعد چین کو بھی ناراض کرنے کے لیے بہت محنت اور جانفشانی کا مظاہر ہ کیا تھا مگر نتیجہ فشار خون کے سوا کچھ نہ نکلا۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ اس کے اثرات نے آئی ایم ایف کو بھی چوکنا کر دیا ۔ شیخ جی کہتے ہیں بھوکے اور ننگے تو رہ سکتے ہیں مگر قومی اثاثوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
شیخ رشید کہتے ہیں غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں مگر شہباز شریف کہتے ہیں کہ ان کی تصویر اخبارات کے فرنٹ پیج پر ہونا چاہیے۔ حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ بڑھاپا شیخ رشید پر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ موصوف کو یہ یاد نہیں رہا کہ تحریک انصاف کے کرم فرماں اور پنجاب تحریک انصاف کے صدر چودھری پرویز الٰہی آٹے کے تھیلے پر اپنی تصویر چھپوایا کرتے تھے۔ جسے دیکھ کر بچے پوچھا کرتے تھے تھیلے پر مونس الٰہی کی تصویر کیوں چھپی ہے۔
کس کو دیں قتل کا الزام بڑی مشکل ہے
جو بھی قاتل ہے ہماری طرح بسمل ہے
تیز دھاروں نے حدیں توڑ کے رکھ دیں ساری
اب یہ عالم ہے کہ جو دریا ہے وہی ساحل ہے