اسلامی جمہوریہ پاکستان پر غیر اسلامی ایجنڈا این جی اوز کا حملہ

615

پاکستان ان ترقی پزیر ممالک میں سے ہے جہاں حکومتیں عوام کی بنیادی ضرورتوں کا اس طرح خیال نہیں رکھ سکتیں جس طرح ایک فلاحی ریاست کو کرنا چاہیے۔ یہ کمزور معیشتوں اور غریب ممالک کا المیہ ہے کہ ایک خلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہ خلا عوام اور حکومت کے درمیان پیدا ہوتا ہے لیکن اسے ایجنڈا اس خوبصورتی سے پُر کرتا ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے والوں کو لوگ مسیحا اور اپنا نجات دہندہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کام کے لیے دنیا بھر میں قائم این جی اوز ہیں جو ایسے حالات میں نہایت خوبصورت نعروں کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہیں۔ ان کے حملے بھوک، انسانی ضروریات، صحت، خواتین کے ساتھ غیر منصفاہ سلوک، مساوات مردوزن کی آڑ میں ہوتے ہیں اور پھر اسلام نشانہ بن جاتا ہے۔ مولوی کے نام پر ملا کے نام پر اور اب تو ڈھٹائی ہوگئی ہے براہ راست اسلام ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں این جی اوز بہت اچھے اور بڑے بڑے کام کررہی ہیں لیکن مسلمان اور ترقی پزیر ممالک میں ان کے لاکھوں ڈالر کے ایجنڈے کے ذریعے لوگوں کو مذہب سے بدظن کیا جاتا ہے۔ سیالکوٹ میں مسلمانوں کو روٹی کے بدلے عیسائی بنانے کا عمل کئی عشروں سے جاری ہے۔ سندھ میں کاروکاری اور لڑکیوں کی جبری شادی رکوانے اور برضاورغبت مسلمان ہونے والوں کو جبری مسلمان قرار دینے کے نام پر یہ حملہ آور ہیں اور پاکستانی حکمرانوں، طاقتور اداروں، ارکان اسمبلی، وزرا، وڈیروں، جاگیرداروں، قوانین اور سرداروں نے کون سا قبیح فعل چھوڑا ہے جو ایسی این جی اوز کو موقع نہ دے۔ پاکستان میں کوئی داڑھی والا اَن پڑھ آدمی کسی عورت پر تیزاب پھینک دے تو اسلام پر حملہ اور مصطفی کھر کا بیٹا اپنی بیوی پر تیزاب پھینکے تو خاموشی۔ وڈیرہ تین بیویاں رکھے اور دو کو کسی قسم کا حق نہ دے تو خاموشی، مولوی دوسری شادی کرلے تو اسلام پر حملہ۔ ملک میں 75 برس میں کبھی مولوی، اسلامی جماعت یا دینی گروہ برسراقتدار نہیں رہا لیکن ملک کی تباہی کا ذمے دار اسلام۔ 30 برس فوج براہ راست برسراقتدار رہی تو صرف جمہوریت کے نعرے یہ این جی اوز لگاتی رہیں۔ اور جمہوریت کے نام پر عورتوں، بچوں پر مظالم کے وقت یہ خاموش رہتی ہیں۔
پاکستان اتفاقاً قدرتی آفات کا بھی بار بار شکار ہوتا رہتا ہے لیکن یہ قدرتی آفات عوام کے لیے آفات اور حکمرانوں اور ایجنڈے والی این جی اوز کے لیے چاندی ہوتی ہیں۔ حکمراں ادارے بنا کر ساری دنیا سے فنڈز جمع کرتے ہیں اور عوام محروم رہ جاتے ہیں۔ ایجنڈا والی این جی اوز کام کم اور شور زیادہ کرتی ہیں۔ ان کے فنڈز کا 70 فیصد انتظامی اخراجات اور اشتہار بازی پر خرچ ہوتا ہے۔ دوسری طرف سنجیدہ ادارے بھی ہیں اور پاکستان کے یہ ادارے عالمی سطح پر کام کرنے والے اداروں سے بہت زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے قوانین کی پیچیدگیوں کے باوجود عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا کوئی آفت یہ این جی اوز بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہب سب کی مدد کرتی ہیں اور یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ یہ این جی اوز اسلامی شناخت رکھتی ہیں۔ کوئی اسلامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہے اور کوئی اسلامی نام بھی رکھتی ہے۔ زلزلے سے اب تک یہ اسلامی این جی اوز مسلسل خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ہمارا موضوع یہ نہیں ایجنڈا این جی اوز ہیں۔ آج کل گرماگرم موضوع عورت مارچ اور عورتوں کے حقوق ہیں۔ چنانچہ انہیں اپنے ایجنڈے کی راہ میں کوئی رکاوٹ منظور نہیں اس لیے دیوانہ پن کی حدود بھی عبور کرجاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک این جی او اور فورم فار ڈگنٹی انی شی ایٹوز ہے جس کی سربراہ کو اپنا دوپٹہ جلا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو گالیاں دینے سے شہرت ملی اور آج کل وہ ایک فیشن ڈیزائنر ماریا بی کے خلاف صف آرا ہیں۔ ان کی تنظیم ایجنڈا ہم جنس پرستی کو فروغ دینا ہے ان کے ایجنڈے اور کام پر حیرت نہیں ہوتی۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت سے اس این جی اوز کی کرتا دھرتا کو پرائڈ آف پاکستان ایوارڈ ملتا ہے۔ یہ تنظیم ایل جی بی ٹی کے ایجنڈے کو فروغ دیتی ہے۔ یہ سول سوسائٹی یہ این جی اوز نہایت چالاکی سے اہم موضوعات کو ہدف بناتی ہیں۔ ان میں سے ایک ایڈز کے مریضوں سے ہمدردی ہے اس کے ذریعے جنسی تعلق کو عام کرنے کا ایجنڈا ہے۔ اس طرح ان بڑی بڑی این جی اوز کے پیچھے اقوام متحدہ، امریکا اور برطانوی اور یورپی ممالک کے ادارے ہیں۔ ان میں سے ایک تنظیم پارلیمنٹرینز فارگلوبل ایکشن ہے یہ ایل جی بی ٹی کو پوری دنیا میں قانونی بنانے کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک ہینڈبک جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کن شعبوں کے ذریعے حملہ کیا جاسکتا ہے، ان میں ایڈز، ٹرانس جینڈر، مساوات، مردوزن اور جمہوریت شامل ہیں۔ اس کام کے لیے دنیا بھر میں پارلیمنٹرینز کو شامل کیا جاتا ہے تا کہ سارے کام قانونی قرار پائیں اور اس قبیح فعل کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ اس ایجنڈے کو سول سوسائٹی کے پردے میں خوبصورت نام دیا جاتا ہے۔ یو ایس ایڈ نے تو باقاعدہ عظمیٰ یعقوب بٹ اور ایل جی بی ٹی مینٹور قاسم اقبال کا نام بھی دیا ہے۔ ان کا ماریا بی سے کیا جھگڑا ہے صرف یہ کہ آزاد خیال فیشن ڈیزائنر ماریا بی نے کہا کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر کی آڑ میں اپنے خاندانی نظام پر حملے کے خلاف بند باندھا جائے اپنا خاندانی نظام بچائیں۔ اس نے ان کی دال روٹی پر لات ماردی اور جھگڑا ہوگیا۔ ان کا ایجنڈا تین آزادیاں ہیں۔ مذہب، خاندان اور سماجی اقدار، تمام قوانین سے آزادی ہے۔ حال ہی میں امریکا نے 200 ملین ڈالر فنڈز ریلیز کیے ہیں جو پاکستان میں خرچ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ میڈیا سے ڈرامے، عورت مارچ، ہر قانون سے آزادی، ملا کی آڑ میں اسلام اور پاکستان کو گالی۔ یہ کام اسپین میں بھی کیا گیا اور سلطنت عثمانیہ میں بھی پہلے انہیں قابل احترام، چوغا پہنایا جاتا ہے پھر ایجنڈا مسلط کیا جاتا ہے۔ اسی لیے پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں نظریاتی قیادت اور حکومت کا ہونا لازمی ہے۔ لیکن نظریاتی قیادت اور حکومت آئے گی کہاں سے۔ سول سروسز اکیڈمی میں اس کے سربراہ کی جانب سے جو افسوسناک اور شرمناک عمل کیا گیا اور سرکاری وسائل اپنے شوق پر اڑائے گئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایجنڈا کہاں تک پہنچا ہوا ہے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر پہلے ہی گل کھلا رہے ہیں۔ نہ جانے کتنے لوگ اب تک ایجنڈے کا شکار ہیں اور اس کے آلہ کار بن چکے ہیں۔
پاکستان میں سنجیدہ کام کرنے ولی بڑی این جی اوز میں درج ذیل ہیں۔
الخدمت فائونڈیشن، ریڈ فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، سیلانی ویلفیئر، اخوت فائونڈیشن، شوکت خانم میموریل، آغا خان فائونڈیشن، بیٹھک اسکول نیٹ ورک، گرین کریسنٹ ٹرسٹ، چھیپا ویلفیئر، عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ، دی سٹیزن فائونڈیشن
ان کے علاوہ بھی بہت سی این جی اوز کام کررہی ہیں لیکن جو این جی اوز اسلام، پاکستان کے نظریہ اور قوانین کو تبدیل کرنے پر زور دیں ان کا غیر ملکی ایجنٹ ہونا اس سے ثابت ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ملکی قوانین کے ماتحت کام کیا جانا چاہیے قوانین بدلنے پر اصرار شبہات جنم دیتا ہے۔