سانڈوں کی لڑائی

567

چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں تو بہت سے مصائب و مسائل سے نجات ایک یقینی امر ہے۔ مگر جب پاؤں چھپانے کی کوشش کی جائے تو چہرہ بھی بے لباس ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جن اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو پاؤں ہی نہیں چہرہ بھی ننگا دکھائی دینے لگتا ہے۔ خدا جانے مقتدر طبقات کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ عوام سے قربانی کا تقاضا کرنے والے اپنے عیاشیوں سے دست بردار ہو جائیں تو ملک کی معیشت اتنی مستحکم ہو سکتی ہے کہ جھولی پھیلانے اور کشکول اٹھانے کی ضرورت ہی نہ رہے مگر المیہ یہی ہے کہ حکمران طبقہ جھولی پھیلانے اور کشکول اٹھانے کا عادی ہو گیا ہے۔ عادت ایسی نا ہنجار بیماری ہے جو آدمی کو نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ وطن عزیز میں اگر کوئی ایسا میکنزم ہوتا جو حکمرانی کے طلب گاروں کو نفسیاتی معائنہ کرانے کا پابند کردیتا تو وطن عزیز ان کے رحم و کرم پر نہ ہوتا۔ ایوان اقتدار ان لوگوں کے لیے شجر ممنوع قرار دے دیا جاتا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف اپنے خطبات میں ایڑیاں رگڑ کر آب زم زم کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ کبھی اپنے کپڑے بیچ کر قوم کو خوشحالی کی نوید سناتے ہیں مگر یہ ایسی خواہشات ہیں جن کی کوکھ سے خیر برآمد نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ سانڈوں کی لڑائی میں زمین کو سینہ چھلنی ہو جاتا ہے اور بھوک قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔ میاں صاحب کے مد مقابل تو ایک درجن سے زیادہ سانڈ کھڑے ہیں جن کی دھما چوکڑی سے بچنے کے لیے کسی کو مشیر، کسی کو وزیر مملکت اور کسی کو معاون خصوصی کے اعزاز سے نوازتے رہتے ہیں۔ ان کے اس عمل کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ قومی خزانہ کھوکھلا ہوتا رہتا ہے جو حشرات الارض کا عشرت کدہ بن جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کہا گیا تھا کہ کابینہ میں جو مشیر وزیر مملکت اور معاون خصوصی شامل کیے گئے ہیں وہ تنخواہ لیتے ہیں نہ دیگر سہولتیں اور مراعات لیتے ہیں۔ بلکہ ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کے تحت کابینہ کا حصہ بنے ہیں اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو سہولتیں، مراعات اور تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب وہ تنخواہیں نہیں لیتے تھے اور حکومت انہیں دیگر مراعات و سہولتیں فراہم نہیں کرتی تھی تو اب انہیں ختم کرنے کا راگ کیوں آلاپا جا رہا ہے۔
کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر سرکاری افسران سے رہائش گاہیں خالی کرانے کے لیے کمیٹی کیوں تشکیل دی جا رہی ہے۔ کمیٹی کی تشکیل حکومت کے ارادوں کی غماضی کر رہی ہے۔ پون صدی گواہ ہے کہ جب بھی معاملے کو دفن کرنا ہوتا ہے کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ جو وقت کی گرد میں گم ہو جاتی ہے۔ قبل ازیں موصوف نے تھرکول انرجی بلاک ٹو کا افتتاح کرتے ہوئے قوم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ اس سے چھے ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہو گی اور پاکستان تین صدیوں تک بجلی کے معاملے میں خودکفیل ہو جائے گا۔ کیونکہ اس وقت ہمارے پاس ایک سو پچھتر ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ اور یہ نوید بھی سنائی تھی کہ جدید ٹیکنالوجی اور چین کے تعاون سے مکمل ہونے والا یہ منصوبہ آلودگی سے پاک ہو گا اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت بھی دس روپے فی یونٹ سے زیادہ نہیں ہوگی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں بجلی پیدا کرنے کے وسائل موجود ہیں تو پھر قوم پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب کیوں نازل کیا جاتا ہے۔ آخر اس کی کوئی وجہ تو ہو گی جس کی تحقیق ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کے لیے کسی کمیٹی کا بیٹھانا ملک کا بٹا بیٹھانے کے مترادف ہے۔ حکومت چلانے کے لیے اداروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ حکمران نہ تو خود حکومت چلاتے ہیں اور نہ اداروں کو حکومت چلانے دیتے ہیں۔ کیونکہ مقتدر طبقہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حکومت ارکان اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ نہیں چلاتے۔ حکومت چلانا اداروں کا کام ہے۔ اداروں کے سربراہان کو خانہ زاد بنا دیا جائے تو ملک خالہ جی کا گھر بن جاتا ہے اور انتظامیہ غریب کی جورو بن جاتی ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ عدلیہ اور پولیس کو بھی غریب کی جورو بنا دیا گیا ہے۔
شنید ہے امریکا میں بھی ایسے ہی حالات پیدا کر دیے گئے تھے مگر حکومت نے خون خرابے کے بہانے اپنی بزدلی اور نا اہلی کو چھپانے کے لیے سعی نا مشکور نہیں کی تھی بلکہ انتہائی دلیری اور جرأت مندی سے اس کا مقابلہ کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق عوام کی سرکشی کو دبانے کے لیے ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ مگر کسی نے بھی ان کا ماتم نہیں کیا تھا۔ کیونکہ مہذب اور ترقی یافتہ قومیں اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہیں کہ ملک اہم ہوتا ہے شخصیات اہم نہیں ہوتیں۔ جو بھی ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے اس کو جینے کے حق سے محروم کرنا ہی حب الوطنی کی دلیل ہے۔ کیونکہ قوم کا وجود ملک کی سلامتی سے مشروط ہوتا ہے۔ ملک کو غیر محفوظ بنانے والوں کی حفاظت کرنا، انہیں سہولت فراہم کرنا بھی حب الوطنی کی تذلیل ہے۔ اور ملک کی تذلیل کرنا ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ جس کا دفاع کرنا غداری سے بھی بڑا سنگین جرم ہے۔