آئین مظلوم کے پچاس سال

703

قائداعطم محمد علی جناحؒ کی آنکھ بند ہوتے ہی پاکستان میں اقتدار کی وہ چھینا جھپٹی شروع ہوئی کہ اس میں قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد ہی کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا۔ اِسی چھینا جھپٹی کے نتیجے میں قائداعظم کے دست ِ راست اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی شہید کردیے گئے اور وطن عزیز سرزمین ِ بے آئین کی حیثیت سے قبضہ گروپوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ آخر تحریک پاکستان کے ایک مخلص قائد چودھری محمد علی کی کاوشوں سے 1956ء میں ایک آئین بنا اور اس کے تحت 2 سال بعد پہلے عام انتخابات ہونا قرار پائے تو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے بندوق تان کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ملک کے سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کی یہ ابتدا تھی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی 1956ء کا آئین منسوخ کردیا۔ انتخابات غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کردیے اور ملک میں اپنی آمریت کو قانون کا درجہ دے دیا۔ وہ اپنے زعم ِ حاکمیت میں اِس نتیجے پر پہنچے کہ وہ عوام جنہوں نے جمہوری جدوجہد کے ذریعے یہ ملک حاصل کیا تھا جمہوریت کے قابل نہیں ہیں۔ اس لیے انہیں پہلے بنیادی جمہوریت کا سبق دینا چاہیے۔ چناں چہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت پورے ملک میں (اس وقت مشرقی پاکستان بھی وطن عزیز کا حصہ تھا) 80 ہزار یونین کونسلیں قائم کی گئیں اور صدر کا انتخاب ان کی ذمے داری قرار پایا۔ اس نظام کے تحت پہلا صدارتی انتخاب 1965ء میں ہوا جس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے مقابلے میں میدان میں اُتارا۔ وہ عصر ِ موجود میں ملک کی سب سے قابل احترام شخصیت تھیں۔ عوام ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے اور الیکشن میں ان کی جیت یقینی تھی، لیکن جنرل ایوب نے فراڈ انتخابات کے ذریعے انہیں ہرا دیا اور منصب صدارت پر اپنی گرفت برقرار رکھی۔ انہوں نے کنونشن مسلم لیگ کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت بھی بنالی اور وردی اُتار کر جعلی انتخابات کے ذریعے سول صدر بن بیٹھے، لیکن ان کا انداز آمرانہ ہی رہا، انہوں نے 1956ء کا اسلامی جمہوری اور پارلیمانی آئین منسوخ کرکے 1962ء میں اپنا جو آئین نافذ کیا اس کی مثال فیصل آباد کے اس گھنٹہ گھر سے دی جاتی تھی کہ شہر کے تمام راستے اس کی طرف جاتے تھے۔ 1962ء کے نام نہاد آئین میں بھی تمام اختیارات کا مرکز صدر کی ذات تھی اس میں پُرامن انتقال اقتدار کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا تھا کیوں کہ جنرل ایوب خان یہ سمجھتے تھے کہ وہ ابدالآباد برسراقتدار رہیں گے، انہیں نہ موت آئے گی نہ بیمار ہوں گے، آخر جب بیمار ہوئے تو اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی اور فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
جنرل یحییٰ خان نے بھی اپنے پیش رو کی روایت پر عمل کرتے ہوئے 1962ء کا آئین منسوخ کردیا اور لیگل فریم ورک آرڈر جاری کرکے اس کے تحت 1970ء میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ 1970ء کے انتخابات کو بالعموم نہایت صاف اور شفاف قرار دیا جاتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، ان انتخابات کی یہ منصوبہ بندی کی گئی تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں دو الگ الگ جماعتوں کو اکثریت حاصل ہو اور یہ دونوں جماعتیں آپس میں مل بیٹھنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آجائیں اور جنرل یحییٰ خان آرام سے منصب صدارت پر فائز رہیں لیکن حالات کسی کے قابو میں نہیں رہتے اور سارے اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ جنرل یحییٰ خان کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی اور حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ مشرقی پاکستان میں بغاوت پھوٹ پڑی اور اس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا اور مغربی حصے کو پاکستان کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس کا اقتدار پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے حصے میں آیا تو انہیں اس سرزمین بے آئین کو آئین دینے کی فکر لاحق ہوئی تا کہ باقی ماندہ ملک مزید شکست و ریخت کا شکار نہ ہو اور آئین کی رسّی سے اسے باندھ کر رکھا جاسکے۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل تھی اس لیے آئین کی تشکیل میں مسٹر بھٹو کا کردار مرکزی نوعیت کا تھا تاہم قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے ان سے غیر مشروط تعاون کیا۔ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد اگرچہ صرف چار تھی لیکن اس کے پارلیمانی لیڈر پروفیسر غفور احمد آئین کے مسودے کی تیاری میں بھرپور انداز میں شریک رہے اور ان کے مشوروں اور تجاویز کو خوشدلی سے قبول کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے آئین سازی میں ان کی کاوشوں کو کھلے دل سے سراہا۔ اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود، نیشنل عوامی پارٹی کے عبدالولی خان اور دیگر سیاسی لیڈروں نے آئین کی تیاری میں نہایت مثبت کردار ادا کیا۔ یوں 1973ء میں ایک ایسا آئین قوم کو میسر آگیا جو ہر اعتبار سے اسلامی بھی تھا اور جمہوری و پارلیمانی بھی۔ اس میں قانون و انصاف کو بھی سربلند رکھا گیا تھا اور شہریوں کے انسانی حقوق اور ووٹ کے ذریعے انہیں اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کی ضمانت بھی دی گئی تھی۔ عرضیکہ 1973ء کا آئین قوم کی آرزوئوں اور اُمنگوں کی بھرپور ترجمانی کررہا تھا۔
اِس وقت ہم 2023ء سے گزر رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان کے آئین کو بنے اور نافذ ہوئے 50 سال ہوگئے ہیں۔ آئین پاکستان کا یہ حق ہے کہ اس کی گولڈن جوبلی منائی جائے اور جن نامساعد حالات میں آئین نے خود کو برقرار رکھا اور ملک کے تحفظ کی ضمانت دی اس پر خصوصی تقریبات منعقد کی جائیں اور آئین کی پاسداری کا ازسرنو حلف اُٹھایا جائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شاید ایسا ممکن نہ ہوسکے کیونکہ آئین نافذ ہونے کے بعد مقتدر قوتیں اور حکمران طبقہ مسلسل آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے، اس کا آغاز نفاذ آئین کے فوراً بعد ہی ہوگیا تھا۔ مسٹر بھٹو جنہیں 1973ء کے آئین کا خالق کہا جاتا ہے، وہی اس آئین پر پتھرائو کرنے اور اس کا چہرہ بگاڑنے میں سب سے آگے تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں آئین کے اندر یکے بعد دیگرے سات ترامیم کیں جن کا مقصد اپنے شخصی اقتدار کو مستحکم کرنا اور جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے نہایت غیر جمہوری رویہ اپنایا اور آئین کو پامال کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خود انہیں تختۂ دار پر جھولنا پڑا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیا الحق اقتدار پر قابض ہوئے تو وہ مسلسل آئین کی تضحیک کرتے رہے لیکن اسے منسوخ کرنے کی ہمت اُن کے اندر پیدا نہ ہوئی کیونکہ آئین نے آرٹیکل 6 کی صورت میں خود اپنے اندر اپنی حفاظت کا بندوبست کررکھا تھا۔ جنرل ضیا الحق آئین کو پامال کرنے کا طویل منصوبہ رکھتے تھے لیکن قدرت نے انہیں زیادہ مہلت نہ دی اور طیارے کے حادثے کی صورت میں عبرت ناک موت سے دوچار ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف نے آئین سے غداری کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور اپنے دورِ اقتدار میں آئین کو معطل رکھا۔ وہ اقتدار سے بے دخل ہوئے تو وطن کی سرزمین نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا اور وہ دیارِ غیر میں بے بسی کی موت سے ہمکنار ہوئے۔ ان کے بعد سول حکومتیں آئیں وہ بھی آئین کی مکمل پاسداری نہ کرسکیں۔ 2018ء میں عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا، انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی آئین کو ایک طرف رکھ کر طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ وہ کبھی چین کے نظام حکومت کو سراہتے، کبھی ایران کے خونیں انقلاب کی تعریف کرتے، مقصد یہ تھا کہ مخالفین کو طاقت کے ذریعے کچل دیا جائے اور آئین و قانون کی حکمرانی کے بجائے ملک میں طاقت کی حکمرانی کو فروغ دیا جائے۔ آخر قدرت نے ان کی طنابیں کھینچ لیں، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وہ اقتدار سے سبکدوش کردیے گئے اور ان کے مخالفین برسراقتدار آگئے۔ اب ان کے مخالفین ان کے ساتھ وہی سلوک کررہے ہیں جو عمران خان اپنے مخالفین کے ساتھ کرچکے ہیں۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی بُرا سلوک کررہے ہیں۔ عمران خان کے مکان واقع زمان پارک لاہور کا محاصرہ کرکے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا ہے، جواب میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی ہے اور سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ آئین کے مطابق پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات قریب ہیں، انتخابی شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے لیکن حکومت بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتار کررہی ہے۔ لیڈروں کی گرفتاری کے لیے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ عمران خان کے مکان کو سرچ آپریشن کی آڑ میں تہس نہس کردیا گیا ہے۔ اس ساری کارروائی کا مقصد ملک میں اشتعال انگیز صورت حال کو فروغ دے کر امن وامان کا مسئلہ پیدا کرنا ہے تا کہ انتخابات کو روکا جاسکے۔ آئین انتخابات کا تقاضا کرتا ہے لیکن حکومت آئین کی خلاف ورزی پر تُلی ہوئی ہے وہ انتخابات نہیں کرانا چاہتی۔
1973ء کے آئین کو 50 سال ہوگئے، وہ بہت مظلوم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سخت جان بھی بہت ہے اس کے ساتھ جو بھی ٹکرایا ہے پاش پاش ہوگیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا انجام بھی صاف نظر آرہا ہے۔