پاک کشمیر تعلقات اور بدلتے حالات

744

سابق چیئرمین متحدہ جہاد کونسل جموں کشمیر اتحاد و یکجہتی قوموں کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اسلام ہمیں یکجہتی اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ یکجہتی کا مفہوم کسی فرد یا گروہ کے مقاصد کی تکمیل کی خاطر اس شخص یا گروہ سے اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کر کے اُس کی مدد کرنا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر اور پاکستان کے موجودہ مخصوص حالات پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں کے درمیان کامل اور غیر متزلزل یکجہتی کے ساتھ ساتھ اخوت کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہزاروں سالہ تاریخ کی حا مل ریاست جموں وکشمیر 1947 کے برصغیر پاک و ہند بالخصوص پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ساتھ قدرتی وجغرافیائی تعلق اور صدیوں سے سماجی، تجارتی، ثقافتی اور مذہبی رشتے چلے آرہے ہیں۔ جموں کشمیر کے مسلمان عرصہ دراز سے غیر ملکی حکمرانوں اور ڈوگروں کے بعد بھارتی ظلم وجبر کا شکار چلے آرہے ہیں۔ خطہ ٔ پنجاب کے مسلمانوں نے تاریخ کی ہر مشکل گھڑی میں کشمیریوں کا ساتھ دیاہے۔ ڈوگرہ تانا شاہی کے دور میں حکیم الامُت ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ؒ نے 1931 میں ’’کشمیر ایکشن کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں لاکر اہل ِ جموں وکشمیر کو ظلم وستم سے نجات دلانے کے لیے موثر تحریک چلائی۔ کشمیر ایکشن کمیٹی نے علامہ اقبال ؒکی صدارت میں14اگست 1931 کو لاہور کے موچی دروازہ پر تاریخی جلسے کا انعقاد کر کے ریاستی مسلمانوں سے یکجہتی اور اتحاد کا فقید المثال مظاہرہ کیا۔ ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک کے عروج کے دوران ہی برصغیر کے مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لیے منظم تحریک شروع کی۔ مسلمانان جموں کشمیر نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کے ملی نظریہ کی تقلید کرتے ہوئے تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور یوں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جاری کشمیریوں کی
جدوجہد ’’تحریک حصول پاکستان‘‘ کا حصہ بن گئی۔ مسلمانان جموں وکشمیرنے قیام پاکستان سے قبل ہی آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے سری نگر میں منعقدہ 19جولائی1947کے اجلاس میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کرکے ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔
برصغیرکے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے صلے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا لیکن بدقسمتی سے تقسیم برصغیر کے دوٹوک اصولوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے باوجود ریاست جموں کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بن سکی۔ کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ نے ریاست جموں کشمیرکا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے بجائے ایک ’’اسٹینڈسٹل معاہدہ‘‘ کیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں نے صوبہ سرحد کے لوگوں کی مدد سے مسلح جدوجہد کے ذریعے ریاست کے ایک حصے کوڈوگرہ فوج سے آزاد کرایا۔ بھارت نے 27اکتوبر 1947 کو مہاراجا ہری سنگھ کے ریاست جموں کشمیر کا ہند یونین سے الحاق کرنے کے اعلان کے فوراً بعد اپنی فوجیں سری نگر کے ائرپورٹ پر اتار کر ریاست کے بیش تر حصے پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ کشمیر میں جنگ کے دوران بھارت 1948 کو مسئلہ کشمیر لے کر اقوام متحدہ میں گیا۔ اقوام متحدہ نے کشمیر میں جنگ بندی کرانے کے بعد 5 جنوری 1949 کو قرارداد منظور کرکے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت ریاست جموں کشمیر کے لوگ ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے ریاست کا بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کئی قراردادیں منظور کیں لیکن کشمیری عوام کو حق خودارادیت کا موقع نہیں دیا گیا جس کے حصول کے لیے وہ گزشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ اس دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان 19 ستمبر 1960 کو ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ اور 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد 10جنوری 1966 کو ’’تاشقند معاہدہ‘‘ طے پایا۔ جس کے تحت دونوں ممالک کے مابین دیگر امور کے علاوہ 5اگست 1965کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر فوج کی واپسی اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا اتفاق ہوا جب کہ ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کے تحت مقبوضہ کشمیر کے دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ سے بجلی پیدا کرنے کا اختیار بھارت کو دیا گیا۔ پاکستانی اور کشمیری عوام میں ان دونوں معاہدوں کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔
1971 میں بھارت نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی حمایت کرکے وہاں مداخلت شروع کی جس کے خلاف 19اگست 1971 کو کشمیر میں تاریخی مظاہرے ہوئے۔ اس دوران پاکستان 16دسمبر 1971کو دولخت ہوا اور سقوط ڈھاکا کے بعد 2 جولائی 1972 کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ’’شملہ سمجھوتا‘‘ طے پایا جس میں تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوںکے بجائے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس معاہدے سے بین الاقوامی حل طلب کشمیر کے معاملے کو دوطرفہ مسئلہ بنا دیا گیا۔ ان واقعات کی وجہ سے جموںکشمیر کا سیاسی اور سماجی نظام تہہ و بالا ہوکر رہ گیا اور 13نومبر 1974 کو جموں و کشمیر محاذ رائے شماری کے رہنما مرزا محمد افضل بیگ اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نمائندے جی پارتھا سارتھی نے ’’کشمیر ایکارڈ‘‘ کی دستاویز پر دستخط کیے۔ اس ایکارڈ کے تحت مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر اور بھارت کے تعلقات آئین ہند کے دفعہ 370 کے تحت برقرار رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ نے 25 فروری 1975 کو جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھالیا۔ کشمیری مسلمان اس سمجھوتے پر سخت برہم ہوئے اور انہوں نے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر 28فروری 1975 کو مقبوضہ ریاست میں تاریخی ہڑتال کر کے بھارت سے مکمل آزادی تک تحریک جاری رکھنے کا عزم دہرایا۔
بھارت نے جموں کشمیر پر 27 اکتوبر 1947کے اپنے غاصبانہ قبضے کے بعد مقبوضہ ریاست کو خصوصی آئینی حیثیت دی تھی۔ بھارتی آئین کے دفعہ370 کے تحت ریاست جموں وکشمیر بھارت کے زیر انتظام ایک نیم خود مختارریاست تھی جس کا باضابطہ اپنا آئین اور جھنڈا تھا اور اسے داخلی انتظامی اور خود مختاری حاصل تھی۔ اس دفعہ کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے بغیر کسی بھی بھارتی قانون حتیٰ کہ مالیاتی ایمرجنسی کا نفاذ بھی مقبوضہ جموں کشمیر میں ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ دفعہ 35A کے تحت ریاست کے اندر زمینوں کی خرید وفروخت، سرکاری وظائف و ملازمتوں اور ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ دینے کا حق صرف ریاستی باشندوںکو حاصل تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا اور غیر ریاستی سے شادی کرنے والی خواتین جائداد کے حق سے محروم ٹھیرتی تھیں۔
(جاری ہے)