پوچھ لیں: بتا تیری رضا کیا ہے؟

569

عمران خان کو سلام جنہوں نے اس ملک کے اداروں میں خستگی کے جو آثار برسوں سے نظر آرہے تھے اسے ایک خوفناک بحران کی شکل دے کر اداروں کی تقسیم سب پر عیاں کردی ہے۔ ایک صوبے کی پولیس دوسرے صوبے کی پولیس پر بندوقیں تانے ہوئے ہے، عدالتیں ایک دوسرے کے فیصلوں کو زیر وزبر کررہی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے منصف اعلیٰ کے فیصلوں میں جانب داری ناقابل توضیح کیوں ہے؟ مقدمات لاہور ہائی کورٹ جاتے ہی یہ گمان کیوں کر لیا جانے لگا ہے کہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آئے گا؟ خان خاناں نے نہ صرف گرفتاری دینے سے انکار کردیا بلکہ اس کی مسلح مزاحمت بھی کی۔ پاکستان کے سب سے بڑے لیڈرکی اس عسکری کارروائی کو عدالتوں نے جس معصومانہ طریقے سے لیا ہے اور اس پر لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کی پیشی کے موقع پرجو خاموشی اختیار کی گئی ہے اس سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بجز اس کے کہ اس ملک میں انصاف بھی سلیکٹڈ ہے۔ لاہور پولیس جسے دیگر اضلاع کی پولیس کی کمک بھی حاصل تھی بیس گھنٹے تک عمران خان کے دہشت گرد جتھوں سے یکطرفہ مار کھاتی رہی بلکہ گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے بھیجی گئی نفری کے نشانے پر بھی آگئی جس نے لاہور اسلام آباد پولیس کی وارنٹ کی تکمیل میں مزاحمت کی اور اس پر بندوقیں تان لیں جس کے بعد اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس معاملہ کو آئی جی کی تبدیلی سے رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اگر وارلارڈز کی طرح اپنی پولیس کو دیگر صوبوں کے معاملات میں مداخلت کے لیے استعمال کریں گے تو وفاق پر اس کے نتائج کیا مرتب ہوں گے؟۔
عمران خان نے طاقت کے ظالمانہ استعمال سے جس طرح اپنی گرفتاری کی ریاستی کوششوں کو ناکام بنایا اور عدالتوں سے اپنی شرائط تسلیم کرائی ہیں اس کے بعد پاکستان میں عدل محض ایک ایسا روایتی تصور ہے جس کی اوقات مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں۔ عمران خان پر بقول ان کے 90 سے زائد مقدمات میں صرف ایک توشہ خانہ کیس ایسا ہے جس میں ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔ توشہ خانہ سے متعلق یہ کیس الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں بھیجا تھا جہاں سیشن جج ظفر اقبال اس مقدمے کی سماعت کررہے ہیں۔ 22اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن کے عمران خان کو نااہل قرار دینے کے ایک مہینے بعد سیشن عدالت نے عمران خان کو طلبی کا نوٹس بھیجا جس کے بعد عمران خان کے خلاف ٹرائل کا آغاز ہوا۔ بار بار طلبی کے باوجود جب عمران خان پیش نہ ہوئے تو 15دسمبر 2022 کو ایک بار پھر نوٹس بھیجا گیا کہ ان کے خلاف 9جنوری 2023 کو مبینہ طور پر کرپٹ پریکٹسز کے الزام میں ضابطہ فوجداری کے تحت کریمنل پروسیڈنگز کا آغاز کیا جائے گا۔ عمران خان کے وکلا کی درخواست پر یہ تاریخ 31جنوری تک ملتوی کردی گئی۔ اس تاریخ پر بھی وہ عدالت میں پیش نہ ہوئے تو عبوری ضمانت میں 15فروری تک توسیع کردی گئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ وہ سات فروری کو پیش ہوں تاکہ ان پر فرد جرم عائد کی جاسکے۔ سات فروری کو بھی وہ عدالت میں حاضر نہ ہوئے توعدالت نے انہیں 20فروری تک کی مہلت دے دی۔ جو ایک بار پھر عدم پیشی پر 28فروری تک چلا گیا۔ 28فروری کو بھی عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سات مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ پانچ مارچ کو پولیس ان کے وارنٹ گرفتاری لے کر زمان پارک پہنچی تو اسے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ شبلی فراز نے پولیس کو بتایا کہ عمران خان رہائش گاہ
پر موجود نہیں ہیں لیکن کچھ دیر کے بعد ہی عمران خان اندر سے برآمد ہو کر تقریر کرتے نظر آئے۔ چھے مارچ کو عمران خان کے وکلا سیشن کورٹ اسلام آباد حاضر ہوئے اور وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست کی جو منظور نہیں کی گئی۔ سات مارچ کو عمران خان کے وکلا نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی منسوخی نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف اسلام ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں عارضی ریلیف دیتے ہوئے یہ وارنٹ 13 مارچ تک معطل کیے اور انہیں 13 مارچ کو سیشن کورٹ میں حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا۔ لیکن عمران خان 13 مارچ کو بھی سیشن کورٹ میں پیش نہ ہوئے اور یوں ایک بار پھر ان پر فردجرم عائد نہ ہو سکی۔ عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے اور پولیس کو حکم دیا کہ انہیں گرفتار کر کے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ پولیس عدالت کا حکم نامہ لے کر 14 مارچ کو زمان پارک لاہور پہنچی اور پی ٹی آئی کے سیکڑوں جہادیوں کے ساتھ تصادم ہوا۔ عمران خان زمان پارک میں ہوتے ہوئے گرفتاری سے بچتے رہے لیکن اسی دوران عمران خان لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف حاصل کرنے میں پھر کامیاب ہوگئے۔ پندرہ مارچ کو پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے جمعرات سولہ مارچ تک دس بجے تک پولیس آپریشن کو روکنے کا حکم جاری کردیا اور پولیس کو پیچھے ہٹنے کا کہہ دیا بعد میں یہ حکم جمعہ تک بڑھا دیا گیا۔ 15مارچ کو ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے انڈر ٹیکنگ پر سماعت کرنے کا اختیار سیشن کورٹ پر چھوڑ دیا۔ جمعرات 16مارچ کو ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ وہ عمران خان کی انڈر ٹیکنگ کو قبول نہیں کرے گی اور ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرر رکھے۔ اس موقع پر سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے دس صفحات کے تحریری فیصلے کے الفاظ تاریخی تھے۔ محترم جج نے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار سیشن عدالت کو دیا۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھتے ہوئے عمران خان اپنے حقوق کھو چکے ہیں۔ عمران خان کا اب سیشن عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا لازمی ہے، عدالت کبھی بھی یہ صورتحال نہیں سراہتی، عدالت اسے جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرنا سمجھتی ہے، قانون کمزور اور طاقتور سب کے لیے برابر ہے عمران خان کے رویے کی روشنی میں وارنٹ گرفتاری محض انڈر ٹیکنگ کی بنیاد پر خارج نہیں کیے جاسکتے۔ لیکن15مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے 16اور پھر جمعہ 17مارچ کو آپریشن روکنے اور پولیس کو پیچھے ہٹنے کا کہہ کر سیشن کورٹ کے عمران خان کو گرفتار کرکے 18مارچ کو پیش کرنے کے حکم پر عمل درآمد روک کر وارنٹ کو بے وقعت کردیا تھا۔ کیا لاہور ہائی کورٹ کو پولیس ایکشن روکنے سے پہلے عمران خان کو سیشن کورٹ کے حکم پر سرنڈر کرنے کا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ جمعرات 17مارچ کو اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے بھی عمران خان کی انڈرٹیکنگ کو قبول کرتے ہوئے دودن پہلے دیے گئے اپنے ہی فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے عمران خان کو 18کو سیشن کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
18مارچ کو عمران خان پر فرد جرم عائد ہوتی ہے یا نہیں لیکن اس نے ہمارے ریاستی اداروں پر کئی سوال اٹھادیے ہیں۔ نومبر 2022 سے لے کر تاحال پوری عدلیہ عمران خان کی مرضی کے آگے سرنڈر کرتی چلی گئی یہاں تک کہ مقدمہ جوڈیشل کمپلیکس میں سننے کا عمران خان کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا گیا۔ کیا ریاست پاکستان کے عام شہری کو بھی یہ سہولتیں مستقبل میں مہیا کی جائیں گی؟ آپ نے ملاحظہ فرمایا کس طرح سیشن کورٹ کے فیصلے کو اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ نے معطل کرکے رکھ دیا۔ کیا عدلیہ کے وقار کا مطلب صرف عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ ہوتا ہے۔ اس میں باقی عدالتیں شامل نہیں ہیں۔ آئندہ کے لیے بہتر ہے کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ عمران خان کی مرضی معلوم کر لی جائے کہ وہ اس تاریخ کو گرفتاری دینے پرتیار ہیں یا نہیں ورنہ خوامخوا ریاست کی رٹ اور اس کے اداروں کا تماشا بنانے کی کیا ضرورت ہے۔