کراچی… اور ہر سائز کے بٹوے کا آدمی

540

کراچی کو کب تک انتظار کرایا جائے گا؟ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی، اقتصادی ہر طرح کا مرکز ہے۔ پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے چھوٹا پاکستان کہا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ روشنیوں کا شہر تھا، ملکی معیشت کا حب ہے لیکن وہ حالت ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ عالمی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو دنیا کا بدترین نظام قرار دیا ہے۔ اس نظام کی تباہی کی ایک بڑی وجہ کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں۔ اس پر مزید تباہی یہ ہے کہ ان سڑکوں پر برسوں پرانی خستہ حال بسیں رواں دواں رہتی ہیں۔ کوئی چیک بیلنس نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بدترین ٹریفک جام، اس پر اگر بارش برس جائے تو سڑکیں دریا بن جاتی ہیں اور گلیاں ندی نالے بن کر گھروں کو تہہ و بالا کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بارش میں کراچی کے شہری باہر نکلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حکومت انہیں اپنے رسک پر باہر نکلنے کی مکمل آزادی دیتی ہے کہ گٹر میں گرنے، پانی میں کرنٹ آجانے اور بجلی کے کھمبوں کے ذریعے ملک الموت سے ملاقات کے لیے تیاری کرکے باہر نکلیں۔
2 سال قبل ستمبر 2021ء میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی کی تجاوزات کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک سال کا وقت دیا تھا کہ گجرنالے، محمود آباد اور اورنگی نالے کے متاثرین کی بحالی کا کام مکمل کرے۔ حال یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں بلکہ عشرے کہنا چاہیے کہ کراچی غیر قانونی قصبوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، سڑکیں بدحال، ٹوٹ پھوٹ کا شکار، کوڑے کرکٹ سے اَٹی پڑی ہیں، نالوں پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔ سندھ حکومت پر دو پارٹیوں کی اجارہ داری ہے اور وہ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر بھی کوئی ایکشن لینے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ بجٹ کی کمی کو عذر بنا کر جان چھڑانا چاہتی ہیں، عوام کے لیے ان کے پاس نہ بجٹ ہے نہ کسی قسم کا ریلیف ہے۔ ہاں جب اپنے لیے ترقیاتی فنڈ نکالنا ہوتا ہے یا گاڑیاں خریدنی ہوتی ہیں تو پیسے آجاتے ہیں۔ ہاں ان کو کراچی کا کیا دُکھ۔ یہ تین دہائیوں سے سندھ پر حکومت کرنے والی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں جنہوں نے ذاتی مفادات کے لیے ایک طویل عرسے تک شہر کو لسانیت کی بھینٹ چڑھایا، ہزاروں افراد کو موت کی نیند سلایا، اذیت کے نت نئے طریقے ایجاد کیے، پھر اِس کو دوام بخشنے کے لیے سرکاری اداروں، واٹر بورڈ، کے ایم سی، سندھ کنٹرول بلڈنگ اتھارٹی میں بھتا خوروں، قاتلوں کو ملازمتیں دے کر سرکاری تحفظ فراہم کیا۔ لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور بھتا خوری کی وجہ سے کتنے ہی سرمایہ کاروں کو یہاں سے بھگا دیا گیا، ہزاروں فیکٹریاں بند ہوئیں، روزگار کے حد درجہ مسائل پیدا ہوئے لیکن آج بھی یہ جماعتیں ڈھٹائی کے ساتھ کراچی کے سر پر سوار رہنے کے لیے کمربستہ ہیں۔ پہلے تو وہ کراچی کو بلدیاتی انتخابات کا حق دینے پر ہی آمادہ نہ تھے۔ سوا دو سال کی تاخیر کے بعد انتخاب کرانے پر بادل نخواستہ تیار ہوئے، بلکہ کہنا چاہیے کہ جماعت اسلامی کے نعیم الرحمن نے آمادہ کیا۔ اب انتخابات ہوئے مہینہ ہورہا ہے لیکن نتائج اب بھی مکمل نہیں۔ ووٹنگ کے آغاز ہی سے سندھ حکومت کی طرف سے تاخیر کا رویہ اختیار کیا گیا۔ چند ہزار ووٹوں کی گنتی گننا گویا پہاڑ سر کرنے کے برابر ہوگیا۔ دور دراز سندھ کے اندرونی علاقوں کے نتائج جلدی جلدی سے جاری کردیے۔ لیکن کراچی سے نتائج نے آنے میں عرصہ لگا دیا۔ گویا کراچی کوئی صحرائی علاقہ ہے کہ نتائج اونٹوں پر آرہے تھے جبکہ دادو، بدین، سجاول وغیرہ ترقی یافتہ شہر ہیں کہ ووٹنگ ختم ہونے کے 2 گھنٹے بعد ہی وہاں سے نتائج آگئے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں جیسی دھاندلی کی ہے جماعت اسلامی اس کے لیے ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن میں پیش ہورہی ہے۔ پچھلی پیشی پر الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ بدنیتی ثابت ہونے پر ملوث لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ ثبوت تو آڈیو، ویڈیو ہر طرح کے موجود ہیں۔ دیکھتے ہیں الیکشن کمشنر کیا سزا دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وکیل اس سلسلے میں بیک فٹ پر جا کر دلیل یہ دے رہے ہیں کہ پولنگ کے بعد الیکشن کمیشن کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ سو بس اب نتائج کا حتمی اعلان کردیا جائے جو انہوں نے اپنے حمایتی انتخابی عملے کے ذریعے سے مرتب کروائے ہیں۔ اپنے خاص طریقے کے ذریعے اندرون سندھ حیدر آباد سمیت پیپلز پارٹی نے ساری نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن کراچی میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم سے سابقہ پڑ گیا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن تاریخ پر تاریخ دے رہا ہے لیکن حافظ صاحب پُراُمید ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس موقع ہے اور شواہد بھی ہیں کہ انصاف فراہم کرے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ کراچی کو کب تک انتظار کرایا جائے گا؟ کب کراچی کے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں میں اقتدار آئے گا اور وہ کراچی کو پھر روشنیوں کا شہر بنائیں گے اور پاکستان کے ماتھے کا جھومر بھی کے جس سے ترقی کا راہ گزر جگمگا اُٹھے گا۔ ورنہ سندھ پر قابض دو سیاسی جماعتیں تو پروین شاکر کی بات پر ایمان لائے بیٹھی ہیں۔ پروین شاکر کراچی کی بیٹی تھیں کراچی کے دکھ کو سمجھتی تھیں، بڑے تلخ انداز میں انہوں نے وہ نظم کہی تھی جو اُن آخری شعری مجموعے ’’انکار‘‘ میں موجود ہے۔ کہتی ہیں
کراچی ایک بیسوا ہے
جس کے ساتھ پہاڑوں، میدانوں اور صحرائوں سے آنے والا
ہر سائز کے بٹوے کا آدمی
رات گزارتا ہے
اور صبح اُٹھتے ہی اس کے داہنے رخسار پر
ایک تھپڑ رسید کرتا ہے
اور دوسرے گال کی توقع کرتے ہوئے
کام پر نکل جاتا ہے
اگلی رات کے نشے میں سرشار