گورنر سندھ کی تبدیلی کی بازگشت

600

ایم کیو ایم پاکستان میں نئی بنے والی رابطہ کمیٹی نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ان کو گورنر کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور نئے گورنر کے لیے مصطفی کمال کا نام زیر غور ہے کیا یہ وہی ایم کیو ایم ہے جہاں ایک شخص کے فیصلے پر سر جھکا کر سب کچھ قبول کر لیا جاتا تھا بد نصیبی شہر کراچی اور اس میں بسنے والوں کی کہ انہوں نے جس جماعت کو عروج دیا آج وہی جماعت ان کے مسائل پر مفادات کی سیاست کر رہی ہے۔ ۳۵ برس سے زائد اس جماعت نے کراچی شہر پر راج کیا مگر اس شہر کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے سیاسی انتقام لوٹ مار بھتا خوری مختلف جرائم کو ہوا دی مگر اپنی قوم اور اس شہر کے مسائل کو سیاسی اتحاد کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا۔ ۲۲ اگست کو بانی متحدہ کی پاکستان میں سیاست کا باب دفن ہوا تو ان کے قریبی رفقاء نے مہاجروں اور خاص کر کراچی کے مسائل کا بیڑا اُٹھانے کا عزم کرتے ہوئے اپنے قائد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ کو ایم کیو ایم پاکستان کا نام دیتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں زندہ ر کھنے کا فیصلہ کیا مگر جب نیتوں میں کھوٹ ہو آپس میں نااتفاقی کا عنصر موجود ہو کسی کی کامیابی ہضم نہ ہو رہی ہو تو حکمرانی کا نشہ بہت دیر تک قائم نہیں رہتا موجودہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی پچھلے چھے سال سے ایسا ہی ہورہا ہے۔
کراچی شہر پچھلے کئی سال سے مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، سیوریج کا بوسیدہ نظام، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، بڑتے ہوئے جرائم، کھلے عام منشیات کی فروخت ان مسائل نے اس شہر کی روشنیوں کو اندھروں میں دھکیل دیا ہے مگر اس شہر کے مسائل کو اُجاگر کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش اس شہر پر راج کرنے والی جماعت کی جانب سے نہیں کی گئی بلکہ اس شہر پر ۱۳ برس سے زائد پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو ایم کیو ایم کی جانب سے سہارا دیا جاتا رہا اپنے کالے کرتوتوں کو سامنے نہ لانے کے وعدوں پر پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالا جاتا رہا آج بھی ایم کیو ایم ٹو اپنا سیاسی وجود بچانے کے لیے اس شہر کی بلی چڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج وفاقی حکومت کی جانب سے اس قوم پر مہنگائی کے بم برسائے جارہے ہیں شہر کراچی کو نااہل صوبائی حکومت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے مگر اس شہر کے مینڈیٹ کا دعوی کرنے والی ایم کیو ایم ٹو اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف دکھائی دے رہی ہے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو گورنر کے عہدے سے ہٹانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے گورنر سندھ نے ایسا کیا جرم کر دیا کہ نئی رابطہ کمیٹی جس میں فاروق ستار مصطفی کمال انیس قائم خانی کو شامل کیا گیا ہے ان کی شمولیت نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے یہ وہی گورنرسندھ ہیں جو کچھ دن پہلے بکھرے ہوئے ایم کیو ایم کے دھڑوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش میں متحرک دکھائی دے رہے تھے جس میں وہ کامیاب بھی رہے اور وہ مصطفی کمال جو ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ قیادت اور سینئر رہنمائوں پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے ہیں اور ساتھ ہی آج اُس جماعت کا حصہ ہیں جو بانی ایم کیو ایم کی جدوجہد سے وجود میں آئی تھی اور اس جماعت کے پرانے اراکین نے ان کا نام گورنر شپ کے لیے تجویز کیا ہے یہ وہ ہی گورنر شپ ہے جس پر مصطفی کمال اور بانی متحدہ میں علیحدگی ہوئی تھی مگر آج بانی متحدہ کی جماعت ایم کیو ایم ٹو مصطفی کمال کا پرانا خواب پورا کرنے جارہی ہے۔
مصطفی کمال جو بانی متحدہ پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے جن کو وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے صرف اتنا ہی نہیں موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کی لیڈر شپ سمیت سینئر رہنماء جن میں عامر خان وسیم اختر پر ہمیشہ مصطفی کمال سنگین الزامات عائد کرتے رہے کراچی کے مسائل کی ناکامیوں کا ذمے دار ان کو ٹھیراتے رہے آج کس منہ سے ان کی گود میں بیٹھ گئے ہیں یہ تلخ حقیقت ہے کہ کراچی کے مسائل پر ہمیشہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مذموم سازش کرتے ہوئے ان مسائل کو حل نہ کرنے کی سوچ کو پروان چڑھایا اور جب کسی نے اس شہر کے مسائل کو اُجاگر کرنے کی مخلص جدوجہد کی تو اس کے راستے میں روکاوٹیں ڈالی گئی ہیں آج جب اس شہر کے لوگوں نے اپنے قیمتی ووٹ سے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی کو منتخب کر کے ثابت کر دیا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلزپارٹی ان کے مسائل کے حل کی اہل نہیں تو ایک مذموم سازش کے تحت ضمنی بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان پیپلزپارٹی کی فرمائش پر حصہ لینے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تاکہ جماعت اسلامی اپنا مئیر لانے کی پوزیشن میں نہ رہے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے سیاسی اتحاد کو ناکام بنایا جاسکے۔
آج بھی شہر کراچی چیخ چیخ کر اپنے زخموں کا رونا رو رہا ہے مگر اس شہر کے مینڈیٹ کے دعویدار اس صوبے پر برسوں سے قابض حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی یہ شہر پاکستان کا معاشی حب ہے جس کے مسائل کو اگر ماضی کی طرح نظر انداز کیا جاتا رہا تو اس شہر کا نقصان وطن عزیز کا بہت بڑا نقصان ثابت ہوگا حکمرانوں کی کرپشن ان کی نااہلیوں ناکامیوں نے اس قوم میں تو شعور پیدا کر دیا ہے اب ذمے داری اس ملک کے طاقتوار اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس شہر کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا نوٹس لیتے ہوئے اپنا آئینی کردار ادا کریں تاکہ یہ شہر کراچی اور ملک پاکستان ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہوسکے۔