کچھ کہنا ہے مجھے

597

اضافی ٹیکسوں کی وصولی اور بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافے جیسے اقدامات عوامی ردعمل کو جنم دیتے ہیں جس کا سامنا کوئی بھی رہنما کرنا پسند نہیں کرتا۔ تاہم بعض مرحلے ایسے آتے ہیں جن میں بڑے ملکی مفادات اور ذاتی و گروہی مقبولیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے تو قومی رہنمائوں کو سوچنا پڑتا ہے کہ وقتی طور پر مقبولیت میں اضافے کو ترجیح دی جائے یا صفحات تاریخ پر محفوظ کی جانے والی سطورکے اثرات کا پورا تجزیہ ملحوظ رکھا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں نوجوانوں کے لیے قرض اسکیم کے اجراء کی تقریب سے خطاب میں واضح کیا کہ موجودہ کٹھن صورتحال میں وہ ملک اور ریاست بچانے کے لیے اپنی ساری سیاسی کمائی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان بچانا ہے تو سیاست کی قربانی دینا ہوگی اور ملک کے حالات کی مل کر ذمے داری قبول کرنا ہوگی۔ جہاں تک ملکی معاملات بالخصوص معاشی کیفیت کا تعلق ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ عالمی کساد بازاری نے کئی برسوں کی بدنظمی اور بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کے ساتھ مل کر ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر تشویشناک حد تک گھٹ چکی ہے۔ پٹرول اور گیس کی خریداری مہنگی ہو گئی، اشیائے ضروریہ کے دام مسلسل بڑھ رہے ہیں، بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی سمیت کئی ایسے مسائل درپیش ہیں جن سے نکلنا بیرونی اعانت کے بغیر خاصا مشکل امر ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس میں آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول نہ صرف ناگزیر ہو چکا ہے بلکہ اس کی معاشی ٹیم کی طرف سے مطلوب شرائط پر وطن عزیز کے پورے اترنے کی سند بین الاقوامی اداروں کو یہ تسلی دلانے کا ذریعہ ہے کہ فراہم کیے جانے والے قرضے غیر محفوظ نہیں۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف ڈالر کی قلت اور اسمگلنگ نے ایسی صورتحال پیدا کردی کہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر بلند سطح تک جا پہنچا ہے۔ روپے کی قدر بڑھانے کی کئی کوششیں نتیجہ آور نہ ہونے کے بعد ڈالر پر عائد کیپ ختم کرنے کا اعلان کر دیا، حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کو پروگرام مکمل کرنے کی خواہش پر مبنی پیغام دیے اور کئی اقدامات کیے جانے کے باعث توقع تھی کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی کوششیں گھٹ جائیں گی مگر آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر لانے کے لیے مجوزہ منی بجٹ کا مسودہ مالیاتی ادارہ سے شیئر کیے جانے سمیت اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر پی ڈی ایل بڑھانے، بجلی پر سبسڈی ختم کرنے، ڈالر کا ریٹ مارکیٹ کے مطابق متعین کرنے کے ضمن میں کام ہو رہا ہے جبکہ کفایت شعاری بڑھانے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ قومی کفایت شعاری کمیٹی اس باب میں مختلف سفارشات کو حتمی شکل دے رہی ہے جن کے ذیل میں سرکاری ملازموں کی تنخواہوں، وزارتوں/ ڈویژنوں کے اخراجات میں کمی سمیت اہم نکات شامل ہیں۔ ملک اس وقت جس مشکل صورت حال سے گزر رہا ہے اس سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام اور دوست ممالک کی معاونت اپنی جگہ۔ اندرون ملک ہر سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس باب میں کفایت شعاری مہم حکومتی سطح سے چلانے کی علامات ارکان حکومت سمیت بالائی طبقے کے اطوار سے جھلکنی ضروری ہیں جبکہ دولت کے بہائو کا رخ بھی امیروں سے غریبوں کی طرف کرنے کے اقدامات عملاً نظر آنے چاہئیں۔
ملکی معیشت کی زبوں حالی کے سبب جہاں ایک طرف حکومت وفاقی وزارتوں، محکموں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کرنے کا سوچ رہی ہے وہیں پاکستان سے سفر حج اختیار کرنے والوں کے لیے بھی انتباہ ہے کہ اگلے ماہ (فروری) نئی حج پالیسی 2023ء کے ممکنہ اعلان میں سرکاری حج اسکیم کے اخراجات 10 لاکھ روپے سے زائد ہونے کا امکان ہے کیونکہ ملکی معاشی صورت حال وزارت مذہبی امور کو ملنے والے زرِ اعانت (سبسڈی) کے اجراء کی اجازت نہیں دے رہی۔ حج پر جانے کے خواہش مندوں کے لیے ذاتی بینک اکائونٹ کا ہونا لازمی قرار دیا جارہا ہے جبکہ حج درخواستوں کی وصولی کے لیے وزارتِ مذہبی امور نے ائرلائنز، بینکوں، سعودی حکام اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے رابطے تیز کردیے ہیں قبل ازیں حکومت کی طرف سے نوید سنائی گئی تھی کہ اس برس فی کس حج اخراجات ساڑھے چھے لاکھ تک ہونے کی توقع ہے کیونکہ سابق دور میں جس کرنسی ریٹ پر زائرین حج کے لیے رہائشی انتظامات کیے گئے تھے پی ڈی ایم حکومت کی کوششوں سے ان میں تخفیف کرا لی گئی ہے اور سعودی کمپنیوں کے ساتھ معاملات طے کرکے ہوٹلوں سے بھی رعایتی پیکیج طے کرلیے گئے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ مذہبی فریضہ اداکرنے کی سعادت حاصل کریں اس سال پاکستان کو ملنے والا حج کوٹا مبینہ طور پر اکیاسی ہزار سے زائد ہے جس کے لیے حکومت کو سہولتوں کی فراہمی کے انتظامات پر خصوصی توجہ دینا ہوں گی۔