ماہرین پنگا

590

یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ کسی بھی دانشور نے برصغیر کے مسلمانوں کی بے توقیری کے بارے میں کبھی نہیں سوچا حالانکہ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ جب تک یہاں کے مسلمان عالم اور علم کی تکریم کرتے رہے معزز اور محترم رہے مگر انہوں نے عالم دین کو ملاں کہہ کر بے توقیری کی تو خود بھی بے توقیر ہو گئے۔ امام ابو یوسف درس دے رہے تھے کہ اچانک ایک گیند ان کے قریب آ کر گری۔ قبل ازیں یہ فیصلہ کیا جاتا کہ گیند کہاں سے آئی ہے کہ ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور گیند اٹھا کر چلا گیا۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ یہ بچہ ولدیت کا چور ہے۔ طلبہ میں سے کسی نے کہا کہ امام صاحب آپ نے بچے کی والدہ پر ایسا سنگین الزام لگایا ہے جو قابل گرفت ہے اور اس کی سزا بھی بہت سنگین ہے۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ جاؤ اس کی والدہ سے پوچھ لو کہ میرے قول میں کتنی صداقت ہے۔ طالب علم پوچھتا پاچھتا لڑکے کے گھر گیا اور امام ابو یوسف کے حوالے سے ملاقات کی اور بچے کے حوالے سے امام صاحب نے جو کچھ کہا تھا اس کے بارے میں تصدیق چاہی تو بتایا گیا کہ بچے کا باپ سوداگر ہے اور اکثر گھر سے باہر رہتا ہے۔ ایک بار بچے کا باپ کئی سال تک گھر نہ آیا تو اس پر سفلی جذبات اس پہ حاوی ہو گئے اور وہ اپنے شوہر سے بے وفائی کی مرتکب ہو گئی جس کے نتیجے میں اس بچے کی پیدائش عمل میں آئی۔ میرا شوہر اس بے وفائی سے اس لیے لاعلم رہا کہ وہ چند دن بعد گھر واپس آ گیا تھا۔
یہاں ہمیں وہ سپاہی یاد آرہا ہے جس نے جنگی کیمپ میں ایک کمسن پاکستانی رضاکار سپاہی کے مولوی جی کہنے پر کہا تھا کہ پاکستان واپس جا کر اپنے بچوں کو مولوی اور سکھ کی پہچان بتانا نہ بھولنا ورنہ… تمہاری آنے والی نسلیں بھی جنگی قیدی بنتی رہیں گی۔ مذکورہ کمسن رضاکار سپاہی نے بھارتی سپاہی کی ڈاڑھی کو دیکھ کر مولوی سمجھ لیا تھا کہ ہمارے ہاں ہر باریش بندے کو مولوی صاحب یا مولوی جی کہا جاتا ہے۔ حالات اور واقعات سے لگتا ہے کہ شیخ رشید اور عمران خان میں پیش گوئی کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ الیکشن ہونے والے ہیں۔ کوئی انہونی رکاوٹ نہیں بن سکتی اور شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سیاست عمران خان کے بلے کی زد میں آ کر مر چکی ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ جو پاکستانی اصلی اور نسلی ہوگا وہ عمران خان کو ووٹ دے گا اور ہر مشکل وقت میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو گا۔ گویا عمران خان کی حمایت کرنا ہی اصلی اور نسلی ہونے کی دلیل ہے کیونکہ بے نسب ہی عمران خان کی مخالفت کر سکتے ہیں۔
امام ابو یوسف سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے بچے کے بے نسب ہونے کا اندازہ کیسے لگایا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ جو بچہ شوخ چشم اور بزرگوں کے آداب و احترام سے گریزاں ہو گا اس کے نسب میں یقینا کھوٹ ہو گی۔ اس جواب کے پس منظر میں شیخ رشید اپنے اور اپنے پیر ومرشد کے حوالے سے خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ کسی کے حسب نسب پر ایک ایسا بار گراں ہے جسے کوئی بھی باشعور آدمی اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب سے شیخ رشید جیسے پنچھی کے لیے مسلم لیگ کی چھتری شجر ممنوع قرار پائی ہے شیخ جی بہت غصے میں ہیں۔ آئے دن میاں نواز شریف کے متعلق کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ شنید ہے کہ جس دن میاں صاحب کے بارے میں کچھ نہ کہیں ان کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا۔ تحریکی چورن اور نانی اماں کی پھکی سے بھی سینے کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا۔ موصوف عوام کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ان سے بڑا پنگے باز دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں انہوں نے میاں نواز شریف کو دھمکی نما مشورہ دیا ہے کہ ہم سے پنگا لینے کے بارے میں سوچنا بھی مت کہ ہم نے تلاش بسیار کے بعد ایسے لوگوں کو تحریک انصاف کا حصہ بنایا ہے جن کے پنگے بازی کی دنیا معترف ہے۔ ہمارے پاس ایک سے ایک بڑا پنگے باز موجود ہے۔ اس لیے شریف خاندان کے لیے ضروری ہے کہ ہم سے پنگا لینے کے بارے میں کبھی نہ سوچیں۔ ورنہ ہم اپنے تمام پنگے بازوں کو مسلم لیگ نون کے پیچھے لگا دیں گے اور پھر ہماری مرچ مزید تیکھی ہو جائے گی اور مسلم لیگ نون کا نمک پھیکا پڑھ جائے گا۔
خدا جانے کہ یہ نمک مرچ کا کھیل کب تک چلتا رہے گا۔ سیاست دان کب تک عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہیں گے۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور ہر روزیہ شور برپا کرتے رہے کہ ہمارے استعفے منظور کرو اور جب ان لوگوں کے استعفے منظور کر لیے گئے تو اب یہ ماتم کر رہے ہیں کہ ہمارے استعفے کیوں منظور کیے گئے۔ مگر قوم جانتی ہے کہ یہ استعفے منظور ہونے کا ماتم نہیں ہے۔ رونا اس بات کا ہے کہ تنخواہ بند ہو گئی ہے۔ شیخ صاحب اس پس منظر میں یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ آپ کے پیر ومرشد عمران خان کو پنگا لینا ہی نہیں آتا۔ اس معاملے میں انہیں فوادچودھری کے زانوئے تلمذ تہ کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اس معاملے میں واقعی خاصی مہارت رکھتے ہیں۔
چودھری فواد نے اپنی مشہوری میں اضافہ کرنے کے لیے نیب اور دیگر اداروں کے سربراہان کو خوف زدہ کرنے کے لیے مختلف قسم کی دھمکیاں دیں۔ اور یہ دھمکی ایک ایسا پنگا ثابت ہوا جو چودھری فواد کا پنگا بن گیا۔ چودھری جی کو گرفتار کر لیا گیا اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے سینہ کوبی کے بعد موصوف کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ قوم کو اس حقیقت کا اداراک ہے کہ ہوگا کچھ بھی نہیں صرف چودھری فواد کی مشہوری میں اضافہ ہو جائے گا۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ برصغیر کے مسلمان مسجد کے لیے ایسے امام کو منتخب کیا کرتے تھے جو عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ سادات سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر اس کا تعلق سید گھرانے سے نہ ہو مگر اس کے علم و فضل کے سب ہی قائل ہوں تو ایسے جید عالم دین کو امام مسجد کے عہدے پر فائز کر دیا جاتا تھا۔ خاندانی جھگڑے، آپس کی لڑائی اور رشتے ناتے کے معاملے میں بھی امام مسجد کی رائے اہم اور معتبر سمجھی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ بچوں کے نام رکھنے کے معاملے میں بھی امام مسجد کے تجویز کردہ نام ہی معتبر اور مبارک سمجھے جاتے تھے۔ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے مسلمان اور علماء دین کے درمیان ایسی دراڑ ڈالی کہ ہر باریش شخص مولوی اور عالم دین سمجھا جانے لگا۔ جید علماء دین کو کالے پانی کی سزائیں سنائی گئیں اور امام مسجد ایسے مسلمانوں کو بنایا گیا جو رسمی طور پر ہی مسلمان تھے۔ ان میں زیادہ تر لوگ گورکن تھے۔ سنا ہے انہیں قاضی کے خطاب سے نوازا گیا اور یوں رفتہ رفتہ عالم دین کی اہمیت ختم ہوتی گئی۔ اور ہر وہ شخص مولوی کہلایا جو باریش تھا۔