سندھ بدامنی کی لپیٹ میں

430

سندھ کے مخدوموں کا شہر اور پی پی پی کی سیاست کا گڑھ ہالا، بدامنی کی بُری طرح لپیٹ میں ہے۔ شہر کے مصروف ترین بازار میں میمن برادری کے سیٹھ کاشف میمن کی زرعی ادویہ کی دکان پر دن کے اجالے میں مسلح افراد داخل ہوئے، سیٹھ اور وہاں موجود تین افراد کی جامہ تلاشی لی اور نقدی، موبائل ہتھیالیے اور دونوں رہزن بڑے آرام سے فرار ہوگئے۔ پولیس جو ہمیشہ ٹھنڈا کرکے کھاتی ہے مبینہ طور پر دو گھنٹے بعد پہنچی تو نقش ِ پا بھی خاک ملتے تھے۔ سکرنڈ میں محراب پور روڈ پر آفتاب سیٹھ کی دکان پر بھی دن دہاڑے اس سے ملتی جلتی واردات ہوئی۔ اور لٹنے والوں نے صبرکا گھونٹ پی لیا۔ نواب شاہ میں میڈیکل اسٹور پر بھی رہزنوں اور بدمعاشوں نے دن ڈھلنے کا انتظار تک نہیں کیا ان دنوں اندرون سندھ میں دیدہ دلیری سے رہزنی کی وارداتوں کا تواتر ہے۔ ایک سنار نے بتایا کہ اپر سندھ لاڑکانہ، کشمور، جیکب آباد وغیرہ میں تو یہ عالم ہوگیا ہے کہ رہزن کا نمائندہ آتا ہے اور کاروباری طبقہ کو کہتا ہے کہ اتنی رقم ہمیں درکار ہے، فلاں دن آئیں گے رقم تیار ہونی چاہیے اگر نہیں تو پھر خیر نہیں جس کو مرضی میں آئے تحفظ خاطر بتادو کاروباری طبقہ حسب ِ استطاعت چندہ کرتا ہے اور بھتے کی رقم پوری کرکے وقت مقررہ پر ادائیگی کرکے جان و مال کے تحفظ کا سامان کرتا ہے۔ یہ رہزن ڈاکو پکڑے کیوں نہیں جاتے۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ پولیس کو بھی لوٹ کے مال کا حصہ ایمانداری سے پہنچاتے ہیں۔
میڈیا پر ایک تجویز وائرل ہوئی کہ شہری چندہ کرکے اتنی رقم مقامی پولیس کو ہر ماہ دینے کے لیے تیار ہیں جتنا اُن کو بھتا جرائم پیشہ افراد سے ملتا ہے۔ یوں وہ خوف و ہراس کے ماحول سے تو نجات دلانے کے لیے ان سوتوں کی بیخ کنی کردیں۔ جرائم پیشہ افراد کا کہنا ہے کہ بھوک یہ کراتی ہے ہم جان کو خطرے میں ڈال کر وصولی کرتے ہیں، مرتا کیا نہ کرتا۔ اس ہی مرحلے کے لیے کہا گیا ہے بھلا آٹا 150 روپے کلو، حکومت نے گندم 55 روپے کلو خریدی اور سو روپے کلو بیچ رہی ہے۔ یہ ڈکیتی نہیں تو اور کیا ہے۔ حکومت نے اپنے ملازموں کی تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا؟ ہرگز نہیں کیا البتہ اس تناسب سے ہرچیز کے نرخ ضرور بڑھ گئے۔ دو روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں، بچوں کی خاطر یہ وارداتیں کرنے پر مجبور ہیں بات کسی حد تک درست ہے، ایک سابق مشیر حکومت نے راقم کو سال قبل ایسی صورت حال ہونے سے آگاہ کیا تھا کہ قرض کی مے انارکی پھیلائے گی اور پھر بات سنبھالے نہ سنبھلے گی۔
دکانوں، شاپنگ مال سے بڑھ کر بینک لوٹنے تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ادارے بند ہو رہے ہیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، لوٹ مار اغوا رہزنی کی بڑھوتی کا ایک سبب سیاست کے کھیل بھی ہیں۔ انتخابات بھاری خرچ مانگتے ہیں، جلوسوں کے لیے کرائے کے افراد بھی لانے پڑتے ہیں، سو مال کھپے اور مال کا کمال جیت کی صورت ملے۔ رہزنوں کی ایک ٹولی ان سیاست دانوں کی بھی ہے کوئی ڈھکی چھپی بات ہرگز نہیں، اگر کوئی رہزن بھولے سے پکڑا جائے تو ان سیاست دانوں کے فون پر رہائی کا حکمنامہ آجاتا ہے اور رہائی کے سوا افسران کے بقول کوئی چارۂ کار نہیں رہتا۔ بات نہ ماننے پر فون پر تبادلہ اور عدالت سے ضمانت کا سامان ہوجاتا ہے۔ سرمایہ کار، ٹھیکہ دار، بھتا دے کر روزی اور روٹی کا سامان کرے یا پھر جان و مال سے ہاتھ دھوئے، یہ سیاسی رہزن ڈھکے چھپے ہرگز نہیں اندرون سندھ میں امن کی فاختہ کی برسیاں بھی ہوچکی ہیں اب تو وہ چیلنج پر اتر آئیں ہیں کہ آجائو تم کیا کرلو گے۔ اب رہزنوں کی دکانداروں نے بھی پرسنٹیج مقرر منافع میں کرکے مہنگائی بڑھادی ہے۔ مہنگائی، ناانصافی، انارکی پھیلاتی ہے جو اب روز روشن کی طرح سامنے آرہی ہے، مضحکہ خیز عدالتی اقدامات اور فیصلوں نے ناامیدی کے احساس کو گہرا اور بھتا خوروں، لٹیروں اور بدعنوانوں کو دلیر کردیا ہے، کوئی نہیں پوچھتا ہے کہ تم کیا تھے اور آج کیا ہوگئے ہو۔ مال کہاں سے آیا، اسلامی ریاست میں تو خلیفہ دوم سیدنا عمرؓ کرتے کے بارے میں جوابدہ قرار پائے، آج محراب و منبر اور انبیا کے وارث کہلانے والے بھی احتساب کے جواب میں حیلہ سازی اور فتوے کے منہ توڑ جواب کے عادی بن چکے ہیں۔ اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو امیر المومنین ذمے دار ہوگا۔ اندرون سندھ میں پے در پے بھوک سے تنگ گھرانوں کی خودکشیوں کی خبریں آرہی ہیں اور ان کا خون ناحق ان ہی کے سر پر ہوگا جو ان کے نگراں حکمران ہیں۔
لوٹ کی ایک وجہ یہ ہے کہ انصاف خانوں میں بٹ گیا ہے، اگر ملک میں اس حدیث پر عمل ہوجائے کہ ’’میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا‘‘۔ تو پھر لٹیرے یوں دندناتے نہیں پھریں گے۔ رہی مہنگائی اس کے متعلق بھی یہ فرمان یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ارشاد ہے کہ جو ہمارے ذکر سے منہ موڑے گا اس کی معیشت تنگ ہوجائے گی، ملک کی حالت اللہ کے ذکر سے منہ موڑنے کی بنا پر تنگ ہے اور اس کے بطن سے بدامنی نے جنم لیا اور انصاف نے اس کو پروان چڑھایا ہے اور ملک نازک ترین صورت حال سے دوچار ہے۔
اور باب الاسلام سندھ کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے، آٹے کی دس کلو کی تھیلی نے جان لے لی اس سے بری حالت اور کیا ہوگی۔ اگر صورت حال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو بات بڑھ کر بے قابو ہوجائے گی۔ بدامنی، لوٹ مار کی آگ سندھ میں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق ہوچکی ہے۔ اللہ خیر کرے۔