!متحدہ کا ماضی حال اور مستقبل

669

۔1978، 1984، 1992، 1997، 2002، 12 مئی 2007، 22 اگست 2016 اور 12 جنوری 2023 یہ وہ سال اور تاریخیں جو ایم کیو ایم کے قیام اس کے ٹوٹنے ٹوٹ کر بکھرنے اور بکھر کر سمٹنے کے ساتھ اس کے نامعلوم اور غیر یقینی مستقبل کا اعادہ کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کو کراچی کے مارٹن کوارٹر سے ہجرت کرکے عزیز آباد فیڈرل بی ایریا ہجرت کرجانے والے طالب علم الطاف حسین نے 1978 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس کے نام سے طلبہ تنظیم قائم کرکے اس کے ذریعے یا اسے اپ گریڈ کرکے پہلے مہاجر قومی موومنٹ اور پھر اسے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا نام دیا۔
اپنی 39 سالہ تاریخ میں ایم کیو ایم کو کامیابی سے زیادہ رسوائی حاصل ہوئی جبکہ اس کے بیش تر مخلص کارکنوں کو مسلسل جدوجہد کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ البتہ شاطر اور مفاد پرست کارکنوں نے جو چاہا وہ حاصل کیا۔ ایم کیو ایم کے قیام سے سب سے زیادہ نقصان مہاجر قوم کے نام سے مشہور ہونے والے لوگوں کو ہوا بدلے میں انہیں اب تک صرف مہاجر نام ہی مل سکا جسے ابھی تک سرکاری طور پر ملک کی پانچویں قومیت کی حیثیت سے تسلیم بھی نہیں کیا گیا۔ مہاجروں کو مہاجر نام دینے کا سہرا الطاف حسین کو جاتا ہے مگر بحیثیت قوم اس پر ڈٹے رہنے اور جدوجہد جاری رکھنے کا اعزاز مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد اور مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر کو ملتا ہے اور ملنا بھی چاہیے۔ جنہوں نے اس نام سے منہ نہیں موڑا۔ جبکہ یہ شناخت دینے والے الطاف حسین نے اس لفظ کو اپنی سیاست سے ہٹاکر متحدہ میں تبدیل کیا۔
الطاف حسین کی سیاست اور جاری سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے نظریے اور مقصد سیاست کو 39 سال میں بھی واضح نہیں کرسکے کہ وہ کیا کرنا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ اگرچہ ان کے مہاجروں اور مظلوموں کے حقوق کے نعروں کے سحر میں سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان، جوان اور دیگر اپنی جانیں بھی دے چکے، گھروں سے بے گھر ہوکر لاپتا بھی ہوئے یا انتہائی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ ملک کی شاید واحد جماعت ہے جس نے نوجوان ڈاکٹرز کی بڑی تعداد کو سیاست میں لاکر اس عظیم پیشے کو نا تلافی نقصان پہنچایا۔ لیکن جہاں ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘ کے نعرے اور جان جان کی شرطیں لگائی جانے لگے وہ تحریک اب تک مکمل ختم کیوں نہ ہوسکی یا اسے ختم کیوں نہیں کیا جاسکا؟ یہ سوال سب سے اہم اور فکر انگیز ہے۔ دو فی صد کوٹے کے خاتمے کو لے کر پروان چڑھنے والی متحدہ قومی موومنٹ ٹوٹ کر دوبارہ متحد ہوکر اب ایسا کیا کرنا چاہتی جو اب تک نہیں کرسکی؟ متحدہ کو دوبارہ متحد کرنے والوں کی اپنی زندگیوں پر غور کیا جائے تو وہ با آسانی کسی مفاد پرست سے زیادہ نہیں نظر آئیں گے۔ موجودہ متحدہ کے لیڈرز 15 جنوری کو انتخابات نہ ہونے دینے کے دعوے کے باوجود الیکشن ہوجانے اور نتائج واضح ہونے کے بعد اب ان انتخابات کی حیثیت کو نہ ماننے کا چورن بیچ رہے ہیں۔ متحدہ کو متحد کرنے کے نام پر جو چہرے پھدک رہے ہیں، انہیں مہاجر قوم کے بے وقوف، بے کار یا مفاد پرست افراد کی حمایت تو حاصل ہوسکتی ہے مگر باشعور کراچی والے اب انہیں منہ لگانے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ سیاست کے نام پر تجارت کرتے رہے اور آئندہ بھی یہی کریں گے۔ ان کا مقصد صرف اپنی ’’دکانیں‘‘ کھولنا اور چورن چٹنی نئی صدائوں کے ساتھ بیچنا ہے۔ انہیں تو پاک لفظ مہاجر استعمال بھی نہیں کرنا چاہیے۔
متحدہ قومی موومنٹ کا کوئی رہنما اگر سیاست کو عبادت سمجھ کر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے مشورہ ہے کہ وہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے خصوصاً وہ گناہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے آسان الفاظ میں ان غلطیوں کی معافی ان ہی سے انفرادی طور پر طلب کریں جو ان گناہوں اور غلطیوں سے پریشان ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں ان گناہوں سے توبہ اور معافی کے لیے نئے جھوٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ رہی بات مظلوموں کے ساتھی کی تو ان کی پاکستان واپسی کے کوئی امکانات نہیں۔ ویسے بھی وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اب کوئی بعید نہیں وہ مزید مشکلات کا شکار ہوجائیں۔ کیونکہ مکافات عمل تو یقینی ہے۔