اُف یہ ماسیاں

610

شکیل عادل زادہ لکھتے ہیں، کسی دن گھریلو امور کا قصہ چل رہا تھا۔ جون ایلیا بولے ’’یار شکیل سنتے ہیں پچھلے زمانے میں بیویاں مر بھی جایا کرتی تھیں‘‘۔ اس جملے میں جو شوہرانہ حسرت پوشیدہ ہے وہ بیش تر شوہروں کے دل کی آواز ہے۔ بیگمات کی اس طویل عمری کا سبب ماسیاں ہیں۔
ہمیں ماسیوں پر بہت ترس آتا ہے۔ کئی مرتبہ اظہار کی کوشش بھی کی لیکن بیگم موجود تھیں۔ صاحبو گھر میں خوشحالی اور ماسی ایک ساتھ داخل ہوتی ہیں۔ ہمیں تو آرزو ہی رہی کہ کبھی بیگم کو کام کرتے دیکھیں۔ ہمیشہ ماسی ہی کو گھر کی صفائی اور گاہے صفایا کرتے دیکھا۔ ہماری بیگم بہت چالاک ہیں۔ ایک دن سارا زیور جیولری بکسوں سے نکال کر ایک گندے سے کپڑے میں رکھتے ہوئے بولیں ’’یہ ماسیاں بہت تیز ہوتی ہیں۔ چوروں، ڈاکوؤں کو مخبری کردیتی ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر پوٹلی مسہری کے نیچے پڑے کاٹھ کباڑ میں دبادیں۔ پورے محلے میں چور ڈاکو آئے۔ ہمارے گھر نہیں آئے۔ کچھ دن بعد ماسی بھی نہیں آئی۔ خالی پوٹلی اور ہم سب آج تک اس ماسی کو یاد کرتے ہیں۔ کیا ہی میٹھا بولتی تھی۔
ایک دن ہم نے بیگم سے کہا ’’دیکھو اللہ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے یہ محض ہمارا نہیں ہے۔ اس میں غریبوں کا بھی حصہ ہے۔ اپنے مال میں سے بہترین حصہ ہمیں غریبوں کو خیرات زکواۃ کرنا چاہیے۔ تمہارے پاس اتنے جوڑے ہیں ان میں سے ایک جوڑا ماسی کو دیدو‘‘۔ نئی ماسی ہمیں اچھی لگتی تھی۔ بیگم نے طنزاً ہماری طرف دیکھا، بولیں ’’کیا خیال ہے وہ جو آپ لان کا نیا جوڑا لائے تھے میں نے اب تک نہیں پہنا وہ ماسی کو دیدوں‘‘ ہم ہک دک رہ گئے۔ ہمارا یہ مطلب نہیں تھا کہ نیا جوڑا۔۔۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے بیگم نے ماسی کو آواز دی ’’اری شہناز! سن جلدی سے یہاں آ۔ یہ لے یہ نیا جوڑا تو رکھ لے صاب نے دیا ہے‘‘۔ ماسی کچن نمٹا کر آدھا گھنٹے بعد آئی۔ جوڑا دیکھ کر بولی ’’نہ بیگم صاب! آپ ہی پہنو۔ یہ بدھ بازار کے کپڑے میں نہیں پہنتی۔ میں تو حیدری سے خریداری کروں ہوں۔ اس مرتبہ آپ بھی میرے ساتھ چلنا لان کے ایسے ایسے پرنٹ آئے ہیں…‘‘
ایک مرتبہ صبح سے شام ہوگئی ماسی نہیں آئی۔ فون کرکرکے بیگم تھک گئیں۔ بار خدا شام کو ماسی کے نئے موبائل فون پر کال لگی۔ بیگم نے پوچھا ’’اری شہناز کہاں ہے صبح سے تجھے کال کررہی ہوں جواب نہیں دے رہی‘‘۔ بولی ’’ہاں بیگم صاب دیکھی ہیں صبح سے آپ کی بیس مس کالیں آئی ہوئی ہیں لیکن جواب کیسے دیتی۔ صبح سے تیاری میں لگی ہوئی تھی۔ ملتان میں ساس مرگئی ہے‘‘ بیگم نے کہا: ’’بکواس نہ کر۔ جلدی سے آجا‘‘ ادھر سے ماسی کا جواب آیا ’’آئے ہائے باجی تسی پاگل تو نئیں ہوئے ہو میں ٹرین میں بیٹھی ہوں کیا چلتی گڈی سے چھلانگ مار کر آجاؤں‘‘۔ کامل دس دن بعد ماسی آئی بیگم آپے سے باہر تھی۔ ماسی کو دیکھ کر چھوٹتے ہی بولی: ’’جھوٹی تو تو کہہ رہی تھی کہ تیری ساس مری ہے۔ تیرا میاں تو یہیں پھر رہاتھا‘‘۔ ماسی بولی ’’اے ہے باجی اب آپ میرے میاں پہ بھی نظر رکھنے لگی ہو‘‘۔ بیگم گھبراگئیں، جلدی سے بولیں ’’بکواس بند کر، میرا مطلب ہے جس کی ماں مری…‘‘ ماسی بولی ’’بیگم صاب میت کے گھر میں دس کام ہوتے ہیں۔ وہ منحوس کام کہاں کرتا ہے۔ جہاں کچھ کرنا پڑے وہاں سے دور بھاگتا ہے۔ اچھا چھوڑیں ان باتوں کو، چلیں آگے سے ہٹیں کام کرنے دیں۔ گھر کا کیا حال ہوگیا ہے‘‘۔ دس دن سے کام کرکے بیگم ہلکان ہورہی تھیں جلدی سے آگے سے ہٹ گئیں۔
مہینے کے شروع میں تنخواہ دینے کا وقت آیا تو بیگم نے چالاکی دکھاتے ہوئے کہا ’’دیکھ بھئی تونے دس دن کی چھٹیاں کیں ہیں لیکن میں پانچ دن کے پیسے کاٹ رہی ہوں‘‘ وہ بولی ’’نا بیگم صاب آپ دس دن کے پیسے کاٹو۔ مجھے ایک اور جگہ کام مل گیا ہے۔ وہاں کام بھی تھوڑا ہے، میں کل سے نہیں آؤں گی آپ کے ہاں کام بوہت ہے‘‘ بیگم ہکا بکا رہ گئیں، بولیں ’’دیکھ میرا یہ مطلب نہیں تھا سچ بتا ہر مہینے تو چھٹیاں کرتی ہے کبھی تیرے پیسے کاٹے‘‘۔ بولی ’’نئیں تو بیگم صاب کاٹا کرو آپ کو کس نے منع کیا ہے لیکن میں کل سے کام پر نہیں آؤں گی‘‘ اب تو بیگم ترلوں پر اتر آئیں وہ ظالم نہیں مانی۔ بالآخر ہمیں مداخلت کرنا پڑی۔ ہماری طرف دیکھ کر بولی ’’صاب آپ کہتے ہو کل سے آجاؤں گی لیکن بیگم صاب زیادتی بہت کرتی ہیں‘‘۔ ہماری طرف مسکراتے دیکھ کر ماسی کے یوں یکایک مان جانے پر بیگم کے سینے پر سانپ لوٹ گئے۔ لیکن کچھ بولی نہیں۔ اچھی ماسی کہاں ملتی ہے۔
ماسیوں کی خاص خوبی ان کی برق رفتاری ہے۔ گھر کے جس کام کو دیکھ دیکھ کر بیگم ہلکان اور نہ کرکے بھینس ہوجاتی ہیں، ماسی وہ کام آناً فاناً کر یہ جا وہ جا۔ ایک ماسی صبح سے دوپہر تک چھے سات گھروں میں بآسانی جھاڑو پونچھا، کپڑوں کی دھلائی، کچن کی صفائی اور دیگر کام کرلیتی ہے۔ آپ ماسی کا لاکھ خیال کریں، تنخواہ وصولتے وہ آپ کا خیال نہیں کرے گی۔ آپ ماسی کو ناشتے میں شریک کریں۔ چلتے وقت رات کی بچی پوری پتیلی سالن کی دیدیں۔ چھٹیاں نہ کاٹیں لیکن طے شدہ تنخواہ میں سے سو روپے کم کرکے دکھادیں۔ پھر آپ جانے اور ماسی۔ ایک دفع بیگم نے ایک ماسی رکھی پورے مہینے ا س کی آواز نہیں سنی۔ آتی اور کام کرکے خاموشی سے چلی جاتی۔ تنخواہ کی ادائیگی کرتے وقت پیسوں کی بابت کچھ مغالطہ ہوگیا۔ پھر جو وہ چیخی ہے۔ اتوار کا دن تھا پورا گھر اٹھ گیا۔ بمشکل اس کی طلب کردہ تنخواہ دے کر جان چھڑائی۔ چلتے وقت بیگم سے بولی ’’جب ’’شور‘‘ کی گنجائش نہیں ہے، ماسی کیوں رکھتی ہو‘‘۔ وہ ظالم شوہر کو شور کہتی تھی۔
ماسیوں کا وجود ہمیں وزن کم کرنے والے سلمنگ سینٹروں کی سازش لگتا ہے۔ کام نہ کرکر کے عورتیں کپا ہوجاتی ہیں۔ پھر بھی وہ کام نہیں کرتیں۔ البتہ سلمنگ سینٹر والوں کا کام ہوجاتا ہے۔ اس باب میں نئی تہذیب کو بھی مورد الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ ہم نے آج تک انگلش فلموں میں کسی ہیروئن کو غیر اسمارٹ اور مغربی معاشرے میں اکثر کسی عام عورت کو دبلی پتلی نہیں دیکھا الا چند ایک کے۔ جتنا کام مغربی عورت کرتی ہے، دیکھیں تو مردوں کو بھی شرم آجائے۔ لیکن مرد ہو یا عورت شرم وہاں کسی کو نہیں آتی۔ ہم دریائے ٹیمز کے ساحل پر گئے دور دور تک ننگ دھڑنگ عورت مرد۔ وہاں ہم نے کسی کو شرم کرتے دیکھا تو دریائے ٹیمز کو۔ ساحل سے دور دور بہہ رہا تھا۔
صدیق سالک نے مشرقی پاکستان میں اپنی تعیناتی کے بعد ماسی کے حوالے سے لکھا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آفس سے گھر آئے تو دیکھا کہ دو دو ماسیاں کام کررہی ہیں۔ انہوں نے تفکر سے بیگم سے کہا ’’ہم دو ماسیاں افورڈ نہیں کرسکتے‘‘۔ بیگم بولیں فکر نہ کریں جتنی تنخواہ میں مغربی پاکستان میں ایک ماسی ملتی تھی، اتنی تنخواہ میں یہاں دو ماسیاں مل جاتی ہیں‘‘۔ ماسی غربت اور عورتوں کے استیصال کا استعارہ ہے۔ ہوگی۔ ہم تو سمجھتے ہیں ماسی بیگمات سے اللہ کا انصاف ہے۔ بیگمات شوہروں کو تنگ کرتی ہیں اور ماسیاں بیگمات کو۔ حساب برابر۔