تَسْعِیْر(حصہ اول)

569

عربی زبان میں ’’سِعْر‘‘ کے معنی ’’نِرخ‘‘ کے ہیں اور تَسْعِیْر کے معنی ہیں: ’’ قیمت مقرر کرنا‘‘، یعنی Price Fixing۔ آج کل سوال کیا جاتا ہے کہ آیا: ’’اسلامی شریعت میں تاجروں کے لیے منافع کی کوئی حد مقرر کی گئی ہے، اگر ہے تو کس قدر، کیونکہ بعض اوقات اشیائے صَرف کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں اپنے ملک میں کسی چیز کی شدید طلب کے باوجود اُسے زیادہ نفع کے لالچ میں بیرونِ ملک برآمد کردیا جاتا ہے، اس تاجرانہ شِعار کا شرعی حکم کیا ہے، کیا حکومت اشیائے صَرف کی قیمت مقرر کرسکتی ہے؟‘‘۔
اسلام دینِ فطرت ہے، اس لیے تجارت اور کاروبار کو مشروع کیا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ اشیاء کا تبادلہ چونکہ انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں خرید وفروخت اور تجارت کی ترغیب دی گئی ہے، تجارت اور کاروبار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم جانتے ہو، پس جب نماز (جمعہ) ادا کی جاچکے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرو‘‘، (الجمعہ: 10) حج کے دوران پورے عرب کے لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے اور آپس میں اشیاء کا تبادلہ کرتے اور تجارت کرتے تھے، بعثت نبوی کے بعد بعض مسلمانوں نے احتیاط کے پیش نظر دوران حج تجارت سے اجتناب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی دوران حج بھی مالی معاشی اور تجارتی فوائد حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ یہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے مترادف ہے، البتہ اس تجارت سے مناسک حج متاثر نہیں ہونے چاہییں۔
اگر کاروبار اور تجارت میں اسلامی احکام کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ کاروبار اورتجارت بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے، ایک مرتبہ نبیؐ سے دریافت کیا گیا: ’’کسب معاش کا سب سے پاکیزہ اور بابرکت ذریعہ کون سا ہے، تو آپ نے فرمایا: انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر اچھی بیع‘‘۔ (المستدرک) یعنی بہترین پیشہ وہ ہے جس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے محنت کرنا پڑے یا پھر ایسا کاروبار جس میں، امانت، دیانت اور صداقت کی روح کارفرما ہو، تجارت ایک بابرکت ذریعہ معاش ہے، تاہم اس میں صرف دنیا ہی مدنظر نہیں ہونی چاہیے، بلکہ آخرت کی فلاح بھی پیش نظر رہنی چاہیے اور جو خرید وفروخت شریعت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر کی جائے، اس کو ’’بیع مبرور‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام نے کاروبار میں نفع کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں کی، اگر ایسا ہوتا تو خلافِ فطرت ہوتا اور بعض صورتوں میں ناقابلِ عمل ہوتا اور لوگ اُس کی ناکامی کا دوش اسلام کو دیتے۔ اصولی طور پر تجارت کا مقصد نفع حاصل کرنا ہوتا ہے اور جائز طریقے سے نفع کمانا فی نفسہٖ کوئی عیب نہیں ہے، کیونکہ تجارت ذریعۂ معاش ہونے کے علاوہ معاشرے کی خدمت اور ضرورت بھی ہے۔ تاجر ہی وہ فرد ہے جو ہنرمند، صنعت کار، کاشت کار اور صارِف کے درمیان رابطے کاذریعہ بنتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہؐ نے تجارت پیشہ طبقے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’نہایت سچے اور دیانت دار تاجر آخرت میں انبیائے کرام، صِدّیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے‘‘۔ (ترمذی) اس حدیث پاک کی رُو سے تاجر کی فضیلت کا مدار دو صفات پر ہے: ایک صداقت شِعاری اور دوسری امانت داری۔ اشیائے صَرف کی قیمتیں مقرر کرنے کے بارے میں حدیث میں ہے: ’’(ایک بار) رسالت مآبؐ کے عہدِ مبارک میں اشیاء کے دام بہت زیادہ ہوگئے، تو صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ ہمارے لیے قیمتیں مقرر فرما دیجیے،آپؐ نے فرمایا: اللہ ہی (اپنے قانونِ فطرت کے مطابق) قیمتیں مقرر فرمانے والا ہے، وہی رزق عطا فرمانے والا اور روزی میں تنگی اور کشادگی فرمانے والا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوجو مجھ سے جان و مال سے متعلق اپنے اوپرکسی زیادتی پراللہ تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ کرے‘‘۔ (ترمذی)
البتہ اسلام نے کاروبار یا تجارت کو انسانیت کے لیے نفع بخش بنانے کی خاطر کچھ اصولی ہدایات دی ہیں:
(۱) یہ کہ مجموعی حیثیت سے معاشرے کی فلاح اور خیر خواہی پیش نظر رہے: حدیث مبارک میں ہے: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے، (صحابہ بیان کرتے ہیں) ہم نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) کس کی خیر خواہی، آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب، اس کے رسولؐ، مسلم حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی (دین) ہے‘‘۔ (مسلم) ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے، وہ کسی کی خیر خواہی سے پاک وبرترہے، لہٰذا اللہ کی خیرخواہی سے مراد اللہ کی مخلوق کی خیرخواہی ہے، کتاب اللہ اور رسول اللہ کی خیرخواہی سے مراد اُن کی ناموس کی حفاظت اور اُن کے احکام کی تعمیل ہے، یہ بھی در اصل بندے کی اپنی خیر خواہی ہے، سیدنا عبادہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم نے ان شرائط پر رسول اللہؐ کی بیعت کی: ہم ہر مشکل اور آسانی، حالات کی خوش گواری اور ناسازگاری (الغرض ہرحالت) میں اللہ کے رسول کے ہر حکم کو سنیں گے اور اُس کی تعمیل کریں گے، خواہ ہم پر کسی کو ترجیح بھی دی گئی ہو اور ہم کسی حق دار سے اُس کے جائز حق پر تنازع نہیں کریں گے، ہم جہاں کہیں بھی ہوں، حق بات کہیں گے اور اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے‘‘۔ (مسلم) امیر کی اطاعت سے مراد جائز امور میں اُس کا حکم ماننا اور ناجائز کام پر اُس کو ٹوکنا ہے۔ عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہ بھی ہے کہ ان کو تجارتی اور کاروباری معاملات میں ضرر سے بچائے اور ان کے مفاد کے پہلوئوں کو مدنظر رکھے۔
(۲) دنیا اور آخرت میں توازن: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے، اس سے آخرت کے گھر کی تلاش کرو اور اپنے دنیا کے حصے کو ( بھی) نہ بھولو اور لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے، اور (ظلم و استحصال کے ذریعے) زمین میںفساد (کے بہانے) تلاش نہ کرو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (القصص: 77)
اسلام کا اصول یہ ہے: ’’نہ کسی کونقصان پہنچائو اور نہ خود نقصان اٹھائو‘‘، پس تجارت کی حکمت یہ ہے: ’’تاجر کو بھی اس کا جائز نفع ملے اور صارف کا بھی استحصال نہ ہو‘‘۔ لیکن جہاں تاجر دونوں ہاتھوں سے صارف کو لوٹنے کے حربے اختیار کرے تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور تاجروں کے اس عمل کو مستحسن نگاہوں سے نہیں دیکھتا، صارف کو دھوکہ دینے کے لیے بعض اوقات تاجر جھوٹ بولتا ہے، قسمیں کھاتا ہے، عیب چھپاتا ہے صارف کی سادگی سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے، اس طرح تاجر کو فائدہ تو حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کے مال کی برکت ختم ہوجاتی ہے، حدیث میں ہے: ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: قسم کھانے سے سامانِ تجارت تو بک جاتا ہے، لیکن اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے‘‘۔ (مسلم) یہ شعار مادّی دنیا کو اپنا کلّی مقصود بنانے کا آئینہ دار ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(منکرینِ آخرت کہتے ہیں:) ہماری تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا نہیں جائے گا‘‘۔ (الانعام: 29) قرآن ہمیں اپنے مال سے آخرت کا گھر تلاش کرنے کے بارے میں بتاتا ہے اور ساتھ ہی اپنا دنیاوی حصہ نہ بھولنے کے بارے میں تاکید بھی فرماتا ہے، کیونکہ افراط اور تفریط کی صورت میں ملک میں فساد کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ہمارے وطنِ عزیز میں آج کل تاجروں کی اسی بے رحم سوچ نے بحرانی کیفیت کو جنم دیا ہے، ہر چیز کے دام آسمان تک پہنچے ہوئے ہیں، اشیاء کی قیمتوں کو عوام کی قوتِ خرید میں رکھنے کا کوئی نظام نہیں ہے، ہر ایک اپنے مال کی من مانی قیمتیں مقرر کررہا ہے اور عوام پِس رہے ہیں، عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے، جبکہ سرمایہ داروں کی تجوریاں لبالب بھر رہی ہیں اور ان کو اس پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ مہذب ممالک میں جب حقیقی بحران آتے ہیں تو وہاں کے تاجر ملک سے اخلاص اور وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک کے باشندوںکا ساتھ دیتے ہیں اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات اور سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی ہوس نے دلوں سے رحم کا جذبہ مٹادیا ہے، ملک میں گندم کا وافر ذخیرہ ہونے کے باوجود اشیائے خوراک کی قلت کی افواہیں دراصل اسی مادہ پرستانہ سوچ کی عکاس ہے، بیرونِ ملک اسمگلنگ بھی ہورہی ہے، سیاسی جماعتیں اقتدار کی رسّہ کشی میں مصروف ہیں۔ حکومتِ وقت کو اشیائے صَرف کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے طلب ورسد میں توازن پیدا کرنا چاہیے تاکہ مصنوعی بحران پیدا کرنے والی قوتوں کا قلع قمع ہو۔
(۳) غَرَر یعنی دھوکا دہی سے کام نہ لیا جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھانا سوا اس کے کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو‘‘۔ (النساء: 29) حدیث میں ہے: ’’ایک شخص نے نبیؐ سے ذکر کیا کہ وہ خریدوفروخت میں دھوکا کھا جاتا ہے، آپؐ نے فرمایا: جب تم لین دین کرو تو کہہ دیا کرو کہ دھوکا نہیں ہوگا‘‘۔ (بخاری) یعنی اگر کسی ناتجربہ کار شخص کے ساتھ لین دین میں دھوکا ہوجائے، تو وہ بیع سے رجوع کرسکتا ہے۔ شریعت نے اسی لیے خیار کو مشروع کیا ہے، مُجَلَّۃُ الاَحْکامِ العَدَلِیَّۃ میں مادہ: 164 کے تحت لکھا ہے: ’’دھوکا دہی یہ ہے کہ بائع مَبِیع (Object) کے بارے میں ایسا وَصف بیان کرے، جو در حقیقت اُس میں موجودنہیں ہے، (۴) یہ کہ جو مال کمایا جائے وہ فی نفسہٖ حلال ہو اور اُس کے کمانے کا طریقہ بھی حلال ہو، (۵) غَبَنِ فاحِش نہ ہو: اس کی تعریف مُجَلَّۃُ الاَحْکامِ العَدَلِیَّۃ میں مادّہ: 165 کے تحت یہ درج ہے: ’’غَبن اور دھوکا یہ ہے کہ عام اَشیاء میں نفع پانچ فی صد، حیوانات میں دس فی صد اور غیر منقولہ اشیاء میں بیس فی صد ہو یا اس سے قدرے زائد ہو‘‘، اس کی شرح میں علامہ محمد خالد الاتاسی نے لکھا ہے: ’’اس تناسب کی حکمت یہ ہے کہ عام اشیاء کی خرید وفروخت زیادہ ہوتی ہے، حیوانات کی متوسط ہوتی ہے اور غیر منقولہ (زمین، مکان، دکان اور کارخانے وغیرہ)کی کم ہوتی ہے‘‘۔ (جاری ہے)