مہنگائی کا بوجھ۔ کون اٹھائے؟

812

وزیراعظم شہباز شریف نے اعتراف کرلیا ہے کہ وہ ایک ناکام وزیراعظم ہیں اور ان کے پاس معاشی بحران کے حل کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنا مجبوری ہے، کیوں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جائے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا یہ کہنا کوئی خبر نہیں ہے، ہر شخص اس بات کو جان گیا ہے، معاشی تباہی کس سطح پر پہنچ گئی ہے، اس وقت ملک میں ’’ڈیفالٹ‘‘ کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عملاً ملک تیکنیکی ڈیفالٹ کرچکا ہے، کیوں کہ اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ بینکوں نے درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے سے انکار کردیا ہے۔ ڈالر کے انخلا کی رفتار تیز ہوگئی ہے جس نے تجارت و صنعت کی سرگرمیوں کو عملاً مفلوج کردیا ہے۔ اس وجہ سے کچھ عرصے میں اکثر اشیا کی قلت کا خطرہ سر پر کھڑا ہے۔ بازار میں بہت سی دوائیں دستیاب نہیں ہیں جن میں پیراسٹامول جیسی عام سی دوا بھی شامل ہے۔ ان خبروں کے پھیلنے کے بعد محکمہ صحت کی جانب سے اشتہار شائع کیا گیا ہے کہ دوائوں کی قلت کی افواہیں گمراہ کن ہیں اس لیے دوائوں کی ذخیرہ اندوزی کے بارے میں دوا فروشوں اور تقسیم کاروں کو انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں تو غذائی اجناس بھی درآمد کی جاتی ہیں اس وجہ سے اجناس اور اشیا کی قلت اور مزید مہنگے ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ ایک روز قبل ہی وزیراعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچا لیا ہے۔ لیکن بالآخر وہ اپنے ہی دعوے کی تکذیب کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دیوالیہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے قرض آجائے گا اور تیکنیکی طور پر دیوالیہ ہونے سے تو بچ جائیں گے، لیکن مہنگائی کے تباہ کن طوفان کا سامنا غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی عظیم اکثریت کو کرنا پڑے گا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حکومت میں آنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ معیشت کا بحران کتنا گہرا ہوچکا ہے۔ یہ عذر ناقابل قبول ہے اس لیے کہ وہ ان کا خاندان پاکستان میں 1980ء کے عشرے سے مقتدر طبقے میں شامل ہے اور ان کے خاندان کی پہچان ہی یہ بتائی جاتی تھی کہ وہ صنعت و تجارت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اقتصادی امور کے ماہر ہیں۔ اس بات کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ لندن سے ان کے خاندان اور پارٹی کے اقتصادی ماہر اسحق ڈار آکر آئی ایم ایف سے پاکستان کے لیے رعایتیں حاصل کرلیں گے۔ لیکن اب ان کے حامی بھی حیرت سے دیکھ رہے ہیں کہ ’’تجربہ کار‘‘ خانوادوں کی حکومت کے دور میں معاشی تباہی کی رفتار سابقہ ’’نااہل‘‘ اور ’’ناتجربہ کار‘‘ حکومت کے مقابلے میں بھی تیز ہوگئی۔ جب تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد موجودہ مخلوط حکومت برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت ڈالر 178 روپے تھا جو اب 220 روپے سے بھی زائد ہوچکا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار بینک، کھلی منڈی اور حوالہ منڈی میں ڈالر کے نرخوں میں 25 روپے کا فرق بھی موجود ہے۔ عوام دہری مصیبت میں پھنس رہے ہیں۔ ایک طرف قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف صنعتوں کی بندش، درآمدات و برآمدات میں کمی کی وجہ سے ذرائع روزگار محدود ہورہے ہیں، یعنی آمدنی میں اضافے کی کوئی صورت نہیں ہے جب کہ اخراجات دنوں کے حساب سے بڑھ رہے ہیں۔ معاشی تباہی ایک دن میں نہیں آئی ہے بلکہ سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اس پالیسی کا مرکزی نکتہ قرض کی معیشت ہے جس سے نکلنے کے نعرے تو لگائے گئے لیکن ایک قدم بھی ایسا نہیں ہے جو کسی حکومت نے اُٹھایا ہو۔ معاشی تباہی کی رفتار میں تیزی کے لیے سیاسی دائرے میں جو فیصلے کیے گئے اس کا دخل مرکزی ہے۔ پاکستان میں سیاسی کش مکش کے دوران ایک ایسا وقت بھی آیا جب وزارت عظمیٰ کے لیے ورلڈ بینک کے نمائندے معین قریشی کو درآمد کیا گیا۔ پہلے وزارت خزانہ کا منصب کا فیصلہ سول اور فوجی افسر شاہی کرتی تھی، اس کے بعد یہ اختیار آئی ایم ایف کے پاس چلا گیا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کا خاندان اس کھیل کا حصہ رہے ہیں، اس لیے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ انہیں معاشی تباہی کی کیفیت کا علم نہیں تھا۔ اقتصادی تباہی اس نہج پر پہنچ گئی ہے جہاں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ اب یہ استدلال نہیں چلے گا کہ ملک کو بچانے کے لیے عوام کو سخت اقدامات برداشت کرنے ہوں گے۔ 8 ماہی مخلوط حکومت کی ناکامی کی گواہی وہ بھی دینے لگے ہیں جو شہباز شریف اور اسحق ڈار کی اہلیت کے دعوے کرتے تھے۔ یہ بات عرصے سے کہی جارہی ہے کہ امریکا اور یورپ کے ملکوں کے بینکوں میں پاکستانیوں کے اربوں ڈالر پڑے ہوئے ہیں یہ ہے ایک غریب ملک کے حکمراں طبقے کی پرتعیش زندگی اور وہ غریب عوام کو سبق پڑھارہے ہیں المیہ یہ ہے کہ کسی شعبے میں کوئی ان پارٹیوں کے پاس ایسا فرد یا گروہ نظر نہیں آتا جو موجودہ بیماری کا علاج کرسکے۔