بنو قابل! کراچی کی امید

638

ایک دور وہ بھی تھا جب کراچی کی پہچان بوری بند لاشیں، بھتا خوری، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات تھے۔ لسانی اور سیاسی اختلاف کی بنیاد پر قتل ایک عام سی بات تھی۔ اس وقت واقعتاً کراچی میں مائیں اپنے بیٹوں اور بیویاں اپنے شوہروں کو پڑھنے یا نوکری کے لیے سیکڑوں دعاؤں کے سائے میں بھیجتی تھیں اور سرِشام ہی منتظر نگاہیں گلی کے کونے سے اپنے پیاروں کی آمد پر لگی رہتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی والے پورے ملک میں مشکوک ٹھیرے تھے، نوے کی خوں ریز دِہائی میں جب ہم کالج کے طالب علم تھے، ہمارا لاہور جانا ہوا جہاں کسی وجہ سے ہم باقی گھر والوں کے ساتھ کراچی واپس نہ آسکے اور کچھ دن مزید رکنا پڑا تو وہاں ہمارے عزیز اس تشویش میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں ہم کسی وجہ سے کراچی سے بھاگ کر یہاں چھپنے تو نہیں آئے۔ خیر الحمدللہ! دہشت گردی کا وہ باب تو تمام ہوا لیکن آج کراچی کی شناخت اس میگا پولیٹن شہر کی ہے جو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، پانی، بجلی، گیس کی کمیابی اور تعلیمی اداروں کی تباہی کے حوالے سے معروف ہے۔ روزگار کے ذرائع محدود ہیں۔ بالخصوص نوجوان طبقہ مستقبل سے مایوس ہے کیونکہ ڈگریاں ہونے کے باوجود ان کے لیے نوکریاں نہیں۔ جماعت اسلامی کراچی پچھلے کچھ سال سے کراچی کے مسائل کے لیے مستقل آواز بلند کررہی ہے اور ’’حق دو کراچی کو‘‘ مہم باقاعدگی سے اور منظم انداز سے چلا رہی ہے۔ ناصرف یہ بلکہ کراچی جماعت مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات اٹھارہی ہے۔ چاہے بحریہ ٹاؤن کا معاملہ ہو یا بجلی اور گیس کی کمپنیوں کو لگام دینا، یا پھر بلدیاتی مسائل ہر معاملے میں شہریوں کے حق کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہے۔ شہر کے نوجوانوں کے لیے حافظ نعیم الرحمن اور ان کی ٹیم نے ’’بنوقابل‘‘ کے نام سے ایک ایسا عظیم الشان تربیتی منصوبہ شروع کیا ہے جو آگے چل کر آئی ٹی انڈسٹری اور سوفٹ ویئر ڈویلپمنٹ کے میدان میں کراچی کو نمایاں مقام عطا کرے گا اور لاکھوں نوجوانوں کے لیے بہترین روزگار کا ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھاری زرمبادلہ کے حصول کی وجہ بھی بنے گا۔ بنوقابل پروگرام کا باقائدہ آغاز ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں 19 اکتوبر کو پہلے مرحلے میں لڑکوں کے لیے رجحان ٹیسٹ ہوا جس کا نتیجہ نومبر کے آخر میں آنے کے بعد دسمبر کی 4 تاریخ کو خواتین اور لڑکیوں کا ٹیسٹ بھی ہوچکا ہے اور امکان ہے کہ دسمبر کے اختتام تک دوسرے مرحلے کا نتیجہ آنے کے بعد جنوری سے تربیتی کلاسوں کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔ راقم نے ’’بنوقابل‘‘ رجحان جائزے کے دونوں مراحل میں رضاکار کی حیثیت سے شرکت کی ہے چناں چہ یہاں میں اس ٹیسٹ کی چشم دید روداد اور اپنے تاثرات قارئین کی دلچسپی کے لیے بیان کرنا چاہوں گا۔
میگا ایونٹ ’’بنو قابل‘‘ کے لیے ٹیسٹ میں اتنی زیادہ تعداد میں کراچی کے نوجوانوں، بچیوں اورخواتین نے شرکت کی کہ کسی بہت بڑے بلکہ تاریخی جلسے کا گمان ہوا۔ ہزاروں نوجوانوں کے ٹیسٹ کے لیے جس طرح کا شاندار انتظام کیا گیا اور کسی طرح کی کوئی کمی نہ دیکھی گئی، جس طرح طلبہ وطالبات کو پنڈال میں داخلے کے وقت سے ٹیسٹ کے اختتام تک منظم رکھا گیا۔ پارکنگ، پینے کے پانی، وضو اور نماز کا بہترین انتظام اور بیٹھنے کا انتظام۔ بلاشبہ یہ کسی اور تنظیم یا این جی او کے بس کی بات نہیں۔ اس انتظام میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں، سندھ بوائے اسکاؤٹ، عثمان پبلک اسکول کے اساتذہ اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سندھ پولیس اور رینجرز کے جوانوں نے بھی بھرپور تعاون کیا اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر محترم حافظ نعیم الرحمن کی ولولہ انگیز قیادت میں طلبہ اور کراچی والوں کی بہبود کے لیے ایسا بے مثال پروگرام کرکے دکھا دیا جس کی مثال پورے ایشیاء میں بھی نہیں ملے گی۔ پروگرام کے مہمانوں میں آئی ٹی سے متعلق نامور ماہرین سمیت میڈیا کے اہم افراد جن میں بہروز سبزواری، ڈاکٹر شائستہ لودھی، زیبا شہناز، ایاز خان، شفاعت اور کئی دیگر نے شرکت کی اور پروگرام، خاص طور پر شرکاء کی حاضری کے حوالے سے خوشگوار حیرت اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ پروگرام کی خاص بات ’’شیر کراچی‘‘ حافظ نعیم الرحمن کا شرکاء سے تاریخی خطاب تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ کراچی پورے ملک کی جی ڈی پی کا 35 فی صد اور سندھ کے ریوینیو کا 90 فی صد مہیا کرتا ہے لیکن ظلم کی انتہا ہے کہ اس پیسے سے کراچی کو اس کا جائز حصہ نہیں ملتا۔ ہمارے بچوں کی تعلیم پر نہیں لگتا۔ کراچی والوں کی صحت اور سڑکوں پر نہیں لگتا۔ کیوں ہماری مائیں، بہنیں اور بچیاں چنگ چی میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں؟
انہوں نے اعلان کیا کہ اب جماعت اسلامی نے کراچی کے شہریوں کا ہاتھ تھام لیا ہے اور ہم آپ کو مسائل میں گھرا نہیں رہنے دیں گے۔ اگر ہمیں موقع ملا تو ہم کراچی میں ماس ٹرانزٹ شروع کریں گے۔ اپنے بچوں کے لیے سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر کریں گے۔ آئی ٹی سیکٹر کی ڈیمانڈ دیکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ شہر کے بچوں کے لیے ہم آئی ٹی کورسز شروع کریں۔ بچوں کو قابل بنائیں۔ اسی لیے بنو قابل پروگرام شروع کیا۔ صرف کورسز ہی نہیں، ان کی ملازمت اور فری لانسنگ کا بندوبست بھی کریں گے۔ اس موقع پر طلبہ وطالبات سے ایک ایسا عہد بھی لیا گیا جس کا متن دین سے محبت، اخلاص اور حب الوطنی سے عبارت ہے۔ عہد یہ ہے کہ تمام طلبہ پاکستان اور اس کے اسلامی نظریے کے وفادار رہیں گے۔ پوری محنت اور دیانت داری سے اپنی تعلیمی قابلیت اور پروفیشنل صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے اور اس کے ذریعے اپنے خاندان کے لیے مفید بنیں گے۔ شہر کراچی کی تعمیروترقی میں کردار ادا کریں گے۔ اپنے اخلاق وکردار سے اپنے خاندان اور ملک کی عزت میں اضافہ اور نیک نامی کا سبب بنیں گے۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ مختلف انسٹی ٹیوٹ سے ہمارا معاہدہ ہے۔ ہم اپنے ادارے بھی قائم کررہے ہیں۔ جو ہمارے اسکولوں کی چین (عثمان پبلک اسکول) ہے اس میں آئی ٹی سیکشن بنا رہے ہیں جہاں قابل اساتذہ ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت دیں گے۔ الخدمت کی جانب سے اہل کراچی کو آئی ٹی اور ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت دے کر معاشی خودکفالت اور باعزت ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ’’بنو قابل‘‘ ایک میگا پروگرام ہے جس کے پہلے بیج میں پچاس ہزار طلبہ و طالبات کورسز مختلف اداروں میں مفت کروائے جائیں گے۔ اور کورس کے اختتام پر ان کو اچھی ملازمت یا فری لانس ورک کے حصول میں بھی معاونت کی جائے گی۔ ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد طلبہ تجویز کردہ ادارے سے بالکل مفت اپنی دلچسپی سے متعلق کورس کرسکیں گے اور اپنے لیے باعزت روزگار کے روشن مواقع کا حصول ممکن بنا سکیں گے۔ نا صرف یہ بلکہ آئی ٹی کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرکے اپنے وطن کے لیے معاشی خود مختاری کے حصول میں معاون ثابت ہوں گے۔
یہ پراجیکٹ کراچی کے نوجوانوں کے بہترین مستقبل کی جانب ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اتنے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کے انعقاد کے لیے انتظامات کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ جماعت اسلامی کے ذمے داران اور باصلاحیت ٹیم کا ہی خاصہ ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر انتظام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور یہ وہ پہلا قدم ہے جو نا صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کے لیے ایک شاندار آغاز ثابت ہوگا ان شاء اللہ۔ ’’بنوقابل‘‘ کو قابل عمل صورت میں ڈھالنے کے لیے امیر جماعت اسلامی کراچی اور ان کی ٹیم بجا طور پر قابل مبارکباد ہے کہ اس کے پیچھے مہینوں کی انتھک محنت شامل ہے۔