’’بنو قابل‘‘ سے کراچی کی روشنیاں بحال ہوں گی

553

امریکا میں مقیم سینئر صحافی عارف الحق عارف ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، اور ہر جگہ ان کے اعزاز میں محفلیں منعقد ہورہی ہیں، عارف الحق عارف صحت مند بھی ہیں، اور یاد داشت بھی کمال کی رکھتے ہیں۔ پچاس ساٹھ برس کا قصہ ہے، جو وہ ایک داستان گو کی طرح سناتے ہیں، ان کی داستانوں میں سیاست صحافت، شخصیات، واقعات، سب سموئے ہوتے ہیں، نوجوانوں کے لیے ان کی داستانوں میں بہت کچھ ہے، ایک شخص کی جدوجہد، اپنے پروفیشن سے لگاؤ، نئے آنے والوں کی رہنمائی، وہ سوشل میڈیا پر بھی اپنے سفر کا احوال، ملاقاتیں، پرانے قصے، لکھتے ہیں، ان کو پڑھنے والے اور سننے والوں کا ایک نیا حلقہ وجود میں آگیا ہے، وہ فیس بک کے ابن بطوطہ ہیں، جن کو امریکا برطانیہ، کنیڈا، بھارت، بنگلا دیش اور جہاں جہاں اردو کے پڑھنے والے موجود ہیں، شوق اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ کراچی پریس کلب نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی۔ اگلے دن ہمایوں نقوی نے عارف الحق عارف کے ساتھ چند دوستوں کو مدعو کیا، ہمایوں نقوی کی دعوت اور محفل کا ایک الگ مزا ہے، یہاں کام دہن کی لذت کے ساتھ، مختلف موضوعات پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔ اس بار انہوں نے یہ سوال اہل محفل کے سامنے رکھا کہ ہمارے یہاں ذہین افراد، اور اپنے شعبے کے قابل ترین افراد منظر نامے سے کیوں غائب ہوتے جارہے ہیں؟ سوال اہم تھا، جس پر عارف الحق عارف، ممتاز اینکر انیق احمد، اور چند دوستوں نے اظہار خیال کیا۔
عارف الحق عارف نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے، بنگلا دیش کی مثال دی، جہاں ہزاروں نوجوان، تعلیم کے میدان میں کامیاب ہورہے ہیں اور عملی زندگی میں بھی وہ آئی ٹی کے میدان میں پیش رفت کر رہے ہیں، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس شعبے میں بہت کام ہوا ہے، اور وہ اس وقت آئی ٹی کی فیلڈ میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں چند لوگ ہی ہوتے ہیں، جو کسی تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں، اور پھر ان خوابوں کی تکمیل میں جی جان سے لگ جاتے ہیں، پاکستان میں ہر شعبے میں ایسے لوگ موجود ہیں، اور بساط سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں، بدقسمتی سے ان کوششوں اور منصوبوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہے، حکومت نے بھی اس سلسلے کے کئی پروگرام شروع کر رکھ ہیں، لیکن لوگوں کی ان تک رسائی آسان نہیں ہے، اور نہ ہی ان منصوبوں اور پروگراموں کے بارے میں عوام کو مکمل آگاہی ہے۔ کراچی ہمیشہ سے ملک کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کراچی کے نوجوانوں کے ایسے رہنما بن کر ابھرے ہیں، جو نوجوانوں کو ہرشعبہ زندگی میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں، کورونا، کراچی کی بارشیں، سیلاب کی تباہی میں انہوں نے نوجوانوں کو لے کر جو کام کیے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اب انہوں نے الخدمت کراچی کے تحت شہر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو آئی ٹی کی مہارت کی تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے مقصد کے ساتھ ایک نیا اور انتہائی پرجوش پروگرام ’’بنو قابل‘‘ کے نام سے شروع کیا ہے تاکہ وہ 6 ماہ میں مہارت حاصل کرکے باعزت طریقے سے روزگار کمانا شروع کر سکیں۔
یہ اقدام کراچی کی تعمیر ِ نو پروگرام کا حصہ ہے، جس کا آغاز حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کی تعمیر نو کے سلسلے میں کیا تھا۔ ان کا وژن کراچی کی شان و شوکت کو بحال کرنا اور اسے ایک بار پھر دنیا کے سب سے زیادہ مقبول شہروں میں سے ایک بنانا ہے۔ اس پروگرام پر مرحلہ وار عمل درآمد کیا جارہا ہے، پہلے مرحلے پر سیمینار، ورکشاپ، کانفرنس، تھنک ٹینک کے اجلاس، میں ان مسائل کا جائزہ لیا گیا تھا، جو کراچی کی تعمیر نو کے لیے اہم ہیں، اگلے مرحلے پر ان مسائل کے حل اور اس پر عمل درآمد تھا، اس سلسلے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں آئی ٹی کے شعبہ میں آگے بڑھنے کے مواقع دینے کے لیے عملی کام شروع ہوا ہے، اور طلبہ کو اینڈرائیڈ ایپ اور ویب سائٹ کے ذریعے بنو قابل ڈاٹ پی کے پر بنا کسی فیس کے رجسٹر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ چونکہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے درخواستیں دی گئی تھیں اور آئی ٹی کورسز کے لیے اسکالر شپ فراہم کرنے کی محدود وسائل تھے، اس لیے بہترین امیدواروں کو منتخب کرنے کے لیے ایک قابلیت جانچنے کے ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ جو ایک بے مثال ایونٹ تھا، جس میں ہزاروں طلبہ نے شرکت کی اور رجسٹریشن کرایا۔ اس سلسلے کا دوسرا پروگرام 4دسمبر کو باغ جناح میں ہوا لڑکیوں، اور خواتین کی بہت بڑی تعداد نے ا س پروگرام میں حصہ لے کر ثابت کردیا کہ کراچی کی طالبات اور خواتین بھی اس مہم میں آگے آگے ہیں۔
کراچی ملک کا معاشی حب ہے، جہاں صنعت وتجارت کا پہیہ چلتا ہے، تو پورا ملک اس سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یہ شہر وفاق کو 65 سے 70فی صد ریونیو بھی دیتا ہے، مگر یہاں کے نوجوان خصو صاً پڑھے لکھے نوجوان روز گار سے محروم رہتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کا قتل کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کراچی کے نوجوان اپنے ارد گرد مسائل ہی مسائل دیکھتے ہیں جو ان کے لیے اذیت اور پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
الخدمت ملک کی سب سے بڑی این جی او، اپنے نمایاں کاموں کی وجہ سے قومی افق پر روشنی بن کر ابھری ہے۔ الخدمت نے کراچی کے ان نوجوانوں کے لیے ’’بنوقابل‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے، وہ نہ صرف اس شہر بلکہ اس صوبے اور ملک میں بھی ایک روشن مثال بن کر ابھرے گا۔ جس میں کراچی کے لاکھوں نوجوان، ہنر مند بنیں گے۔ الخدمت اور Aptech (ایپٹیک) کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا ہے۔ الخدمت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر راشد قریشی اور Aptech (ایپٹیک) کی جانب سے سی ای او اقبال یوسف نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ جس کے تحت الخدمت پڑھے لکھے ہزاروں نوجوانوں کو یہ کورسز بلامعاوضہ کروائے گا۔ اس منصوبے کے لیے 100ملین روپے کا تخمینہ لگایا ہے، جبکہ اس کے لیے 50ملین روپے کی رقم مختص بھی کردی گئی ہے۔ یہ اہم قدم کراچی میں ہزاروں میٹرک اور انٹر پاس بے روزگار نوجوانوں کو ہنر مند بنائے گا۔ الخدمت نے banoqabil.pk کے نام سے ویب سائٹ اور ایپ کا بھی اجرا کیا ہے جو گوگل اور ایپل اسٹور سے ڈائون لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کے تحت جو آئی ٹی کورسز کرائے جائیں گے۔ ان میں ویب ڈیولپمنٹ، ویب ڈیزائننگ، ایمزون اور فری لانسنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ سمیت دیگر کورسز شامل ہیں۔
’’بنو قابل‘‘ عالمی معیار کے ٹیکنالوجی ماہرین کی زیر قیادت اعلیٰ قدر کے آن لائن تربیتی پروگرام، خاص طور پر بنو قابل کے طلبہ کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ جس میں الخدمت اب سی آئی ایس سی او اکیڈمی کا ایک سند یافتہ انسٹرکٹر ہے۔ طلبہ یہاں سے اپنے سی سی این اے اور سی سی این پی کی اسناد (سرٹیفکیٹس) حاصل کر سکیں گے۔ اس سلسلے میں ایک آزمائشی پروگرام اس سال کے شروع میں، الخدمت نے پی آئی بی کالونی میں ایک ہنر مندی اور تربیت پر مشتمل ادارہ قائم کرکے کیا تھا جو ٹیلرنگ، الیکٹریشن، پلمبنگ اور واٹر ٹیسٹنگ لیب ٹیکنیشن کی تربیت فراہم کرتا ہے اور وہاں سے بہت سے نوجوان اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کررہے ہیں۔
اگلے مرحلے پر الخدمت کراچی میں کئی ایکڑ اراضی پر ایک اعلیٰ درجے کا ہنر مندی اور تربیت پر مشتمل ادارہ تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو توقع کے مطابق 2023 میں الخدمت کو دستیاب ہو جائے گا، یہ ادارہ ہزاروں طلبہ کو مفت یا سبسڈی پر پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرے گا۔ ہمارے نوجوانوں میں غربت اور بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے، نوجوانوں کے پاس تعلیم بھی ہوتی ہے اور ذہانت بھی، مگر وسائل کی عدم دستیابی انہیں آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔ ایسے میں انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کریں۔ یہی نوجوان یا تو بھٹک کر برے راستے پر چل نکلتے ہیں یا پھر وہ چھوٹے موٹے کام کر نے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن ’’بنو قابل‘‘ سے اس بات کی امید بندھی کہ کراچی کی روشنیاں پھر بحال ہوں گی۔