قانونی لاقانونیت

651

دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چرچل سے سوال کیا گیا کہ برطانیہ پہ جنگ کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مسٹر چرچل نے جو جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے انہوں نے سوال کرنے والے سے سوال کیا، ہمارا نظام عدل کیسا ہے جواب دیا گیا ہمارا نظام عدل پوری دنیا کے لیے قابل تقلید ہے، ہمارے ججوں کا ہر فیصلہ قانون کے تابع ہوتا ہے، مسٹر چرچل مسکرائے اور کہا جس ملک کا نظام عدل قانون کے تابع ہو اس ملک کو دنیا کی کوئی طاقت اپنا مطیع نہیں بنا سکتی۔ اردو کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے بھی یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا قانون دھوتی پوش ہے کوئی طاقت ور آئے تو دھوتی پیچھے سے اٹھا دی جاتی ہے اور اگر کوئی کمزور سامنے ہو تو دھوتی کو آگے سے اٹھا دیا جاتا ہے غور طلب امر یہ ہے کہ اس وقت انڈیا برطانیہ کے تابع تھا مگر انڈیا اور برطانیہ کا قانون مختلف تھا پاکستان ایک آزاد اور خود مختیار ملک ہے مگر اس کا قانون ابھی تک دھوتی پوش ہے، یہاں ابھی تک کالونی کا قانون ہی نافذ العمل ہے اور یہی وہ خرابی ہے جس نے ملک کی آزادی اور خودمختار پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم 75برسوں بعد بھی آزادی اور خودمختاری کی نعمت سے کیوں محروم ہیں۔ وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے ہمارے نظام عدل کو عدل کی قتل گاہ بنا رکھا ہے، یہ سقہ شاہی کب تک مسلط رہے گی، اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کیوں نہیں کی جاتی ہر ادارے کا سربراہ جب تک اپنے عہدے پر فائز رہتا ہے گونگا، بہرا اور اندھا کیوں بنا رہتا ہے مگر جونہی اپنی پسند کی مسند سے اترتا ہے اس کی نظر میں سارا نظام کرپٹ اور بد عنوان کیوں بن جاتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ آئین کی شق 62-63 پر عمل درآمد کیا جائے تو اقتدار مافیا سے نجات مل سکتی ہے، یہاں احتساب کے نام پر انتقامی کارروائی کی جاتی ہے اور بدنصیبی یہی ہے کہ 75برسوں سے یہی ہو رہا ہے اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اسے سیاست کہا جاتا ہے۔ ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی پر طاقتور طبقوں کی بالا دستی ہے جس نے معاشی اور سیاسی بحران کی صورت اختیار کر لی ہے، طاقتور کو دیکھ کر قانون سرنگوں ہو جاتا ہے اور کمزور سامنے آئے تو گردن سے دبوچ لی جاتی ہے، جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہت قائم ہے، کبھی ایک خاندان حکمران بن جاتا ہے اور کبھی دوسراخاندان ملک و قوم پر مسلط کر دیا جاتا ہے، اور اب تیسرا خاندان بھی ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے، جس نے ملک کو تیرہ تین کر دیا ہے، ملک گھربوں روپے کا مقرو ض ہے مگر عشرت کہہ خسرو کے مکین اپنی عیاشی کے لیے روزانہ 20 سے 25 ارب روپے قرض لے رہے ہیں اور ایسا کوئی ادارہ یا میکنزم موجود نہیں جو انہیں روک سکے یا ان کے پروٹوکول پر پابندی لگا سکے، حکمران کوئی بھی ہو قرض لیتا ہے اور پھر لوٹی ہوئی دولت سے بیرون ملک اثاثے بناتا ہے۔ عوام کو صاف پانی میسر ہے نہ آلودگی سے پاک ماحول دستیاب ہے عوام گندا پانی پیتے ہیں اور گندی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں، حکمران طبقہ ائر کنڈیشن کمروں میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر خوش فعلیوں اور خوش گپیوں میں مصروف ہے۔ انہیں عوام اور ملک کے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہیں۔
حزب اختلاف کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے پیش کرے خارجہ اور داخلہ پالیسی کے لیے قابل عمل اور ملک و قوم کی سربلندی کی تجاویز پیش کرے مگر وطن عزیز کی جمہوریت میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا ایک دوسرے سے دست و گریباں رہنا ہی جمہوریت سمجھا جاتا ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ اس غیر جمہوری رویہ پر احساسِ ندامت کرنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار نے سیاسی لڑائی کو ذاتی لڑائی بنا دیا ہے جس کے باعث قومی و ملکی مفادات پر ذاتی تحفظات کو ترجیح دی جاتی ہے پولیس اور دیگر سرکاری ذرائع ملکی استحکام اور قومی خوشحالی کے بجائے ذاتی اقتدار کی جنگ لڑنے لگتے ہیں، حزب اختلاف اور حزب اقتدار اپنے اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ان کے پاس ملک و قوم کی بہتری کا کوئی ایجنڈا ہی نہیں ان کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے اقتدار حاصل کرو خواہ کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں سیاست دانوں کے نام پر سیاسی مافیا سرگرم عمل ہے۔ ان کے گینگ اور جتھے سیاست اور جمہوریت کے نام پر غیر سیاسی اور غیر جمہوری سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، انہوں نے حصول اقتدار کے لیے باریاں لگائی ہوئی ہیں، کبھی ایک گروپ برسر اقتدار آتا ہے، کبھی دوسرا گروپ ایوان اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔