جنرل حافظ صاحب مد ظلہ العا لی

747

جنرل عاصم منیر کی آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد امید ہے کہ مردانہ کمزوری کا شرطیہ علاج ایک بار پھر پاکستان کا مسئلہ نمبر ون بن جائے گا۔ ایسے نسخوں کی پھر بھر مار ہونا شروع ہوجائے گی جن کے استعمال کے بعد تھکا ہارا مرد میدان جنگ سے لوٹنے والے فوجی کی طرح اشتہاروں میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ جنرل منیر کی تعیناتی کا مسئلہ گزشتہ ایک سال سے جس طرح زیر بحث تھا اس سے عیاں ہے کہ ہم پاکستانی چھوٹے چھوٹے کام کرکے خوش ہونے والے لوگ ہیں بڑے کا موں سے توہمیں موت آتی ہے۔ ایک سال سے تنگ آگئے تھے یہ سنتے سنتے کہ ہمارا آرمی چیف یہ ہوگا، آرمی چیف وہ ہوگا، عمران خان نے یہ کہہ دیا، نواز شریف نے وہ کہہ دیا، جنرل باجوہ ایکسٹینشن چاہتے ہیں، نہیں چاہتے ہیں۔ اس ایک موضوع کے سوا کوئی دوسرا موضوع ہی نہیں تھا۔ ہر ایک کے پاس آپشنز کی بھرمار تھی۔ ہر اینکر اس موضوع پر اس طرح تقریر کرتا تھا جیسے اس سے زیادہ با خبر اور مہا استاد کوئی نہیں۔ جب کہ معلوم کسی کو ککھ نہیں تھا۔ زمان پارک سے آنے کے بعد صدر عارف علوی نے جس پھرتی سے سمری پر دستخط کیے ہیں ایسا لگتا تھا جیسے ایوان صدر کے باہر قیدیوں کی وین پہنچادی گئی ہو۔ جس وقت صدر صاحب، جنرل منیر کی منظوری کی سمری پردستخط کر رہے تھے یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب صدر عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، عمران خان اور آرمی چیف ایک ہی پیج پر تھے۔ مانو بلّی سے دکھائی دینے والے شہباز شریف نے یہ کھیل جس چابکدستی سے کھیلا اور آخری وقت تک اصل نام پردہ اخفا میں رکھا اس پر اس کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بھئی بہت عمدہ، کیا کہنے ہیں آپ کے۔
آرمی چیف کی تعیناتی کے سفر میں جو شخص سب سے زیادہ تھکا ہے اس کا نام عمران خان ہے حالانکہ اپنی چال ڈھال میں وہ کہیں سے بھی تھکے ہوئے نظر نہیں آتے۔ چھے ماہ میں انہوں نے ساٹھ سے زائد جلسے کر لیے لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ ستر برس کی عمر میں انہیں چاق و چو بند دیکھیں تو الپاچینو کا یہ جملہ یاد آتا ہے ’’اگر آپ نے صحت بخش کھانا کھایا، روزانہ ورزش کا انتظام کیا اور سگریٹ نوشی سے اجتناب کیا تو آپ صحت مند حالت میں مریںگے‘‘۔ لیکن اس دوران ان کی دماغی خاص کر زبانی صحت حد درجہ خراب رہی۔ بس گالم گلوچ کی کسر رہ گئی تھی ورنہ کون سی نازیبا بات ہے جو اس دوران ان کے دہن مبارک سے ادا نہیں ہوئی۔ ہائے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے کیا روشن فقرے یاد آئے ہیں ’’ایک روشن دل ودماغ آدمی اپنی زبان پر کبھی غیر شائستہ الفاظ نہیں لاتا۔ وہ الفاظ جن میں کھردرا پن ہو اور مقصود کسی کی اہانت یا تضحیک ہو ان سے طبیعت کی نفاست اور سماعت کا حسن مغموم ہوجاتا ہے‘‘۔ سماعت کا حسن ’’مغموم‘‘ ہو جانا ایسی لطیف بات صرف مولانا ابوالکلام آزاد ہی کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی حالت دیکھیں تو خیال آتا ہے کہ صرف تباہ شدہ لوگ ہی خطرناک نہیں ہوتے زندگی بھر کامیابیاں سمیٹنے والے بھی سب کچھ برباد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عشق اور سیاست میں سب جائز ہے۔ غلط ہے۔ عشق اور سیاست میں بھی صرف پاکیزگی ہی جائز ہے۔ عمران خان نے اپنے چاہنے والوں کو سخت ندامت سے دوچار کیا ہے:
تجھ کو کیا علم، تجھے ہارنے والے لوگ
کس قدر سخت ندامت سے تجھے دیکھتے ہیں
اسٹیبلشمنٹ، پاکستان اور عمران خان کا معاملہ ایسا ہے جیسے شادی کے کئی برس بعد بھی بچہ نہ ہو۔ جنرل عاصم منیر کے انتخاب پر بنی گالا میں سوگ کا سماں ہے جب کہ حکومتی حلقوں میں شادمانیاں ہی شادمانیاں ہیں حالانکہ نئے آرمی چیف کے بھی ہاتھ میں چھڑی اور پائوں میں بوٹ ہوں گے۔ عین ممکن ہے وہ بھی آخری ہفتے ہی میں پچھلی تاریخوں میں فوج کے غیرسیاسی ہونے کا اعلان کریں۔ جنرل منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد سب سے زیادہ پر یشانی کا سامنا شہر یار آفریدی کو کرنا پڑے گا جنہیں باپ کا نام تبدیل کرانے کے لیے نادرا کے دفتر کے چکر کاٹنے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا تھا آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں تحریک انصاف کے راولپنڈی کے جلسے میں عمران خان نے خیبر پختون خوا اور پنجاب اسمبلی گرانے کا اعلان کیا ہے۔ کمال ہے چلے تھے وفاقی حکومت گرانے اور آخر میں اپنی ہی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر بیٹھے۔ ویسے خاطر جمع رکھیے اسمبلیاں توڑنا مشاورت سے مشروط ہے۔ جو مشاورت میں چودھری پرویز الٰہی کو ایف آئی آر میں ایک نام ڈالنے پر مجبور نہ کرسکے وہ اسمبلیاں توڑنے پر راضی کرسکیں گے؟ اس کے ساتھ ہی ساتھ جنرل فیض حمید کی قبل ازوقت ریٹائر منٹ کی خبر بھی میڈیا پر گرم ہے۔ غالب نے کہا تھا ’’مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں‘‘ عمران خان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ وہ جنرل فیض پر مرے انہیں قبل ازوقت ریٹائر منٹ لینی پڑی جب کہ جنرل عاصم منیر کو انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا وہ آج آرمی چیف ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کو جج کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی وہ مستقبل کے چیف جسٹس عدالت عظمیٰ ہوں گے۔ ان خبروں کے پہلو بہ پہلو میڈیا پر عمران خان کی ٹانگ سے اترنے والے بلو پلاسٹر کی تشہیر بھی جاری ہے جسے بڑی حفاظت سے ہاتھوں میں اٹھایا جارہا ہے۔ یوتھیے بھی عجیب لوگ ہیں گھڑی گھر میں رکھنے والی چیز تھی اسے بیچ دیا، پلاسٹر پھینکنے والی چیز ہے اسے تبرک کے طور پر محفوط رکھا جارہا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اس پلاسٹر کا مزار بنادیا جائے اور شاہ محمود قریشی کو اس مزار کا مجاور بنادیں۔ شوکت خانم اسپتال سے زیادہ لوگ وہاں صحت یابی کے لیے آئیں گے۔ یہ سب کچھ اس دور میں ہورہا ہے جس میں ڈاکٹر بھی مریض کو اس کی متوقع موت کی اطلاع اس طرح دیتے ہیں کہ اگر موبائل میں سے کچھ ڈیلیٹ کرنا ہو کر لیجیے۔ آپ کے پاس وقت کم ہے۔
جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اب جی ایچ کیو میں تراویح یا شبینہ پڑھوانے کے لیے کسی حافظ کی تلاش کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ان کے حافظ ہونے کی میڈیا پر اس طرح تکرار کی جارہی ہے جیسے وہ غریبوں کے بچوں کو مفت قرآن پڑھانے آرہے ہوں۔ ابھی تو صرف اس مدرسے کا نام سامنے آیا ہے جہاں سے انہوں نے حفظ کیا ہے ذرا بہت سے اینکرز اور کالم نگاروں کے اندرکے کامران خان کو یوٹرن لینے دیجیے اس طرح کے قصیدے بھی آپ کے منتظر ہوں گے ’’جب جنرل حافظ صاحب دنیا میں تشریف لائے تو ان کی دونوں مٹھیاں بند تھیں۔ کوشش کے بعد کھولی گئیں تو ہر مٹھی میں دو اسٹار تھے۔ اسی وقت ایک فقیر کی صدا آئی یہی وہ جنرل ہے جس کے لیے نرگس ہزار سال تک روتی رہی اور اسے بڑی مشکل سے چپ کرایا گیا تھا۔ جنرل صاحب گھر میں تہبند اور کرتے میں ہوتے ہیں۔ باہر جانا ہو تو قمیص شلوار پہن، صافحہ باندھ اور وضو کرکے نکلتے ہیں۔ اسی لیے چہرہ نور علی نور رہتا ہے جس پر تجلیوں کی بارش ہوتی رہتی ہے‘‘۔