مذاکرات یا لال بتی

590

جب سے عمران خان نے لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے مذاکرات کی باتیں اسی وقت سے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ بعض تجزیوں میں یہ بات سامنے آئی کہ عمران خان جو بار بار لانگ مارچ کی تاریخ بڑھا رہے تھے بلکہ بڑھا کیا رہے تھے، وہ کئی بار اس تاریخ کا اعلان کرتے کہ فلاں تاریخ کو ہم یہ اعلان کریں گے کہ ہم کب سے یا کس تاریخ سے اپنا لانگ مارچ شروع کریں گے۔ ان تاخیری حربوں کی دو وجوہات بتائی جارہی تھیں ایک تو یہ کہ کچھ بیک ڈور ملاقاتیں ہورہی تھیں کچھ مذاکرات شروع ہونے کے آثار نظر آرہے تھے کچھ مشترکہ دوستوں کے ذریعے تجاویز کا تبادلہ ہو رہا تھا، عمران خان کا خیال تھا کہ کوئی نتیجہ خیز بات سامنے آجائے تو ہو سکتا ہے انہیں لانگ مارچ نہ کرنا پڑے، دوسری بات یہ تھی کہ اس سے قبل 25ستمبر کو وہ اسلام آباد میں جو جلوس لے کر آئے اور حکومت نے اس کو جس سختی اور حکمت سے تتر بتر کردیا اس سے تحریک انصاف کو شدید دھچکا لگا اور عمران خان نے بیان دیا کہ ہم ایک ہفتے بعد دس لاکھ لوگوں کو لے کر اسلام آباد آئیں گے۔ اس سانحے کے حوالے سے معروف صحافی حامد میر لکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کا بالواسطہ حکومت سے نتیجہ خیزمذاکرات ہو گئے تھے اور شہباز شریف اسمبلی توڑنے والے تھے لیکن عمران خان نے اسلام آباد پر حملہ اس لیے کیا کہ وہاں ایک دو دن کا دھرنا دیں گے اس دوران وزیر اعظم شہباز شریف وعدے کے مطابق اسمبلی توڑ دیں گے تو پوری دنیا کو یہ باور کراسکیں گے، ہمارے دھرنے کی وجہ سے وزیر اعظم نے اسمبلیاں توڑی ہیں۔
پھر یہ ہوا کہ عمران خان کی اس وعدے خلافی پر وزیر اعظم رک گئے اور وہ مذاکرات از خود دم توڑ گئے اس کے ساتھ حکومت کو پچیس تاریخ کی اپنی کامیابی پر ایک اعتماد ہو گیا بلکہ پہلے سے قائم اعتماد میں اور اضافہ ہوگیا کہ ہم آئندہ بھی ان سے آسانی سے نپٹ لیں گے اس کے ساتھ ہی وہ اپنے موقف پر اور مضبوط ہوگئے کہ قبل از وقت انتخابات نہیں ہو سکتے، ادھر عمران خان کی سیاسی پوزیشن 25تاریخ کے اقدام کے ناکام ہونے کی وجہ سے پہلے سے کمزور ہوگئی اس لیے وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے ہم پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے اسی لیے وہ لانگ مارچ کی تاریخ دینے سے ہچکچا رہے تھے لیکن پھر یہ ہوا کہ اے آر وائی کے معروف اینکر ارشد شریف کا قتل ہوگیا ارشد شریف کا شمار عمران خان کے حامی صحافیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شہادت نے عمران خان کا حوصلہ بڑھا دیا اور انہوں نے براہ راست اس تاریخ اور دن کا اعلان کردیا کہ ہم فلاں تاریخ سے اپنا لانگ مارچ شروع کررہے ہیں ان کا خیال تھا کہ پورے ملک میں پہلے سے جو ہمارے حق میں فضاء بنی ہوئی ہے ارشد شریف کی شہادت سے اس میں اور اضافہ ہوگیا ہے اس لیے جلد ہی لانگ مارچ کا آغاز ہوجانا چاہیے اس سے پہلے وہ جو وقت گزاری کررہے تھے کہ ہم بھرپور تیاریوں کے ساتھ آئیں گے وہ اس وجہ سے کہ بیک ڈور سے کوئی نہ کوئی مذاکرات کی باتیں چل رہی تھیں۔ تحریک انصاف کے قائدین اکثر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمیں لال بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے، یہ لال بتی کیا ہوتی ہے ہم تو اس لال بتی کو نہیں جانتے ہیں، بلکہ ہم اس لال بتی کو جانتے ہیں ٹریفک سگنل پر جلتی ہے تو سارا ٹریفک رک جاتا ہے، اسی طرح حکومت نے مذاکرات میںلال بتی دکھا کر عمران خان کو روکا ہوا ہے۔ ویسے لال بتی کا ایک مطلب دھوکا دینا ہوتا ہے تحریک انصاف دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہتی ہے کہ ہمیں مذاکرات کے نام پر دھوکا دیا جارہا ہے۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ایک جاننے والے میرے پاس آئے تھے وہ عمران نیازی کا پیغام لے کر آئے تھے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے پر اور قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کردیا جائے میں نے ان کو منع کردیا کہ تعیناتی تو وزیر اعظم کا اختیار ہے اور الیکشن کے حوالے پی ڈی ایم کا فیصلہ ہے اپنے وقت پر یعنی اگلے سال اگست میں ہوں گے۔ شہباز شریف نے یہ بڑے سنجیدہ اور باوقار انداز میں کہی تھی لیکن عمران خان نے ایک جلسے میں شہباز شریف کی اس بات کا بڑے غلط انداز اور معیار سے گری ہوئی زبان میں جواب دیا کہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ میں نے کوئی فرد اس کے پاس بھیجا ہے میں کہتا ہوں کہ میں اس بوٹ پالشیے کے پاس کیوں کسی کو بھیجوں گا جو خود کار کی ڈگی میں بند ہو کر اسٹیبلشمنٹ سے ملنے جاتا ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے جو تازہ ترین بات آئی ہے وہ یہ کہ منگل 15نومبر کو کاشف عباسی نے فواد چودھری سے پوچھا کہ یہ بتائیے کیا مذاکرات ہوئے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ مذاکرات ہوئے بھی ہیں اور ہو بھی رہے ہیں بس اس سے آگے کچھ نہیں جانتا ایک بڑی دلچسپ بات اس پروگرام میں سامنے آئی کہ آرمی چیف کے مسئلے میں جو آپ لوگ بات کرتے ہیں کہ میرٹ پر فیصلہ کیا جائے یہ میرٹ فوج میں کیا ہوتا ہے سب لوگ تجربہ کار اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں فواد چودھری نے بڑا انوکھا جواب دیا کہ میرٹ کی بات لگنے والوں کے نہیں بلکہ لگانے والوں کے بارے میں ہے مفرور سزایافتہ اور وہ لوگ جن پر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں یہ مجرمان آرمی چیف کا فیصلہ کرنے جارہے ہیں اس پر بات کی جارہی ہے کہ ان لوگوں کا آرمی چیف کا فیصلہ کرنے کاکوئی میرٹ نہیں ہے۔
اب اصل نکتہ پر سوچنا ہے کہ پوری قوم اعصابی تنائو کا شکار ہے کہ یہ لانگ مارچ کب تک چلے گا یہ کب اسلام آباد پہنچے گا بلکہ اب تو یہ بات آرہی ہے کہ یہ اسلام آباد کے بجائے پنڈی جائے گا، دونوں فریقین ایک دوسرے کو دبائو میں لینے کے لیے مختلف حربے استعمال کررہے ہیں شہباز شریف اور ان کے داماد کے حوالے لندن کے اخبار ڈیلی میل کے جو معاملات چل رہے ہیں کہ اخبار کے متعلقہ رپورٹر نے اپنی اسٹوری کی سچائی ثابت کرنے کے لیے جو ثبوت متعلقہ عدالت میں جمع کرائے ہیں عدالت نے ان سسر داماد سے 13دسمبر 2022 تک ان ثبوتوں کا پوانٹ وائز جواب مانگا ہے اور کسی ضابطے کی خلاف ورزی پر 35000 پونڈ شہباز شریف پر اور 27000 پونڈ ان کے داماد پر جرمانہ کیا ہے جو رواں ماہ کے آخر تک جمع کرانا ہے یعنی ہرجانہ لینے گئے تھے جرمانہ دینے کا حکم مل گیا۔ تحریک انصاف والے اس مسئلے کو اپنے پروپیگنڈے میں استعمال کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ن لیگ اس دبائو میں آکر مذاکرات کے حوالے سے اپنے موقف میں کچھ تبدیلی لائے دوسری طرف توشہ خانہ میں سعودی عرب کے شاہ سلمان کی طرف سے تحفے میں دی گئی گھڑی کو جس طرح فروخت کیا گیا ہے اس کا سارا کچھا چٹھا شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں تفصیل کے ساتھ نشر کیا گیا ہے اب پی ڈی ایم والے اس کے حوالے سے عمران خان کے خلاف کچھ سوالات اٹھا رہے ہیں اور مختلف ٹاک شوز میں اس پر تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔ دونوں سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح کی چیزیں مارکیٹ میں لا رہی ہیں تاکہ مذاکرات میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ ریلیف حاصل کیا جاسکے۔ لانگ مارچ کی کیفیت، تاثر اور رفتار بھی مذاکرات پر اثر انداز ہو رہا ہے، عمران خان ویڈیو لنک سے لانگ مارچ کے شرکا سے روز خطاب کررہے ہیں، لیکن اپنے سیاسی مستقبل سے کچھ مایوس بھی نظر آتے ہیں، ویسے آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے سے وہ دستبردار ہو گئے ہیں۔