قانون سازی کا مطلب ہے اللہ سے بغاوت

655

ہم دن رات سیاست سیاست کھیلتے رہتے ہیں۔ اب یہ کھیل اس قدر عام ہو چکا ہے کہ پیدا ہوتے ہی ہر بچہ اس کھیل میں شریک ہو جاتا ہے۔ کھیل کے میدان میں کم از کم دو کھلاڑی تو ضرور اترتے ہیں لیکن لاکھوں شرکا مختلف انداز میں کھیل دیکھ رہے ہوتے۔ کوئی میدان میں جاگتی آنکھوں کے ساتھ کھیل دیکھ رہا ہوتا ہے تو کوئی ٹیلی ویژن کے چھوٹے بڑے اسکرینوں پر نظریں ٹکائے ہوئے ہوتا ہے۔ ہزاروں کمپنیاں اور ادارے اشتہارات کی صورت میں موجود ہوتی ہیں تو نہ جانے کتنے تبصرہ نگار و تجزیہ کار اپنی اپنی بھڑکیں مار رہے ہوتے ہیں۔ کھیل تقریباً سارے ہی صحت بخش ہوا کرتے ہیں۔ کھیلنے والوں کے لیے اس میں صحت و انعام کی بھرمار ہے تو دیکھنے والوں کے لیے تفریح ہی تفریح لیکن اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے بھی ہوتے ہیں جن میں بڑا نام ’’سٹے‘‘ بازوں ہے۔ یہ سٹے باز حقیقی کھیل اور کھلاڑیوں کے درمیان آستین کا ایسا سانپ ہوتے ہیں جو نہ صرف کھیل اور کھلاڑیوں کے روئیں روئیں میں زہر گھول کر رکھ دیتے ہیں بلکہ وہ تمام ناظرین و سامعین جو کھیل سے صحیح معنوں میں اپنے لیے تفریح کشید کرنا چاہتے ہیں، ان کا رواں رواں بھی نیلا پڑ کر رہ جاتا ہے۔
جس طرح کھیل کے مقاصد بہت نیک اور اس کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح سیاست کے اصل معنی بھی انسانوں کی اصلاح کرنے اور ان کو ایک مثبت، پُرسکون، باضابطہ اور خوشگوار زندگی گزارنے کے طور طریقے بتانے کے ہیں۔ سیاست کا مقصد معاشرے کے لیے ایسا دستورِ عمل فراہم کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں موجود ہر فرد ایک پُر سکون زندگی گزار سکے۔ سیاست کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی، یہ ہر شعبہ زندگی پر محیط ہے۔ عدل
ہو، انصاف ہو، ملک کا دفاع ہو، اندرونی امن و امان ہو یا بیرونی مداخلت و جارحیت، کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں جس کو سیاست سے الگ کیا جا سکے۔ ہر معاملے میں ’’اصلاح‘‘ اور تمام معاملات میں مضبوط و مربوط تعلق ہی معاشرے کی ساری اکائیوں کو یکجا رکھ سکتا ہے۔ گویا سیاست تسبیح کے ہر موتی میں پڑے اس دھاگے کی مانند ہے جو اگر ٹوٹ جائے تو وہ دانہ دانہ ہو کر اپنی اہمیت کو گنواں بیٹھتی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں، سیاستدان ہوں یا ملک کے مقتدر حلقے، سب کی چکیوں کے پاٹوں نے سیاست کو پیس کر اتنی بری طرح مجروح کر دیا ہے کہ وہ لفظ جو اصلاح کے معنوں میں بولا جانا چاہیے، اب چالاکی و عیاری میں اتنی بری طرح ملوث ہو چکا ہے کہ اس کا نام دھوکا دہی، ضمیروں کے سودے اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے مفاہیم میں شامل سمجھا جانے لگا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ کوئی تو ایسا آئے جو انہیں معاشرے میں پھیلی ہوئی
برائیوں سے نجات دلا سکے۔ اسی امید و آس پر وہ ہر نئے بازی گر کی بازی گری کے پھندے میں آ جاتے ہیں اور جان و مال کی قربانیاں تک دینے سے گزریز نہیں کرتے لیکن جب سہانے خواب سے ان کی آنکھ کھلتی ہے تو انہیں وہی پرانے عفریت چہرہ بدل بدل کر کھڑے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ وہ کروڑوں عوام جو اپنی خوشحالی کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے میں دیوانے بنے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ہر آنے والے وقت کے ساتھ خود تو بدحال سے بدحال ہوتے چلے جارہے ہوتے ہیں اور جن کو وہ منتخب کرکے ایوانوں کی زینت بنا رہے ہوتے ہیں ان کی گردنیں موٹی اور کمر کا گھیر بڑے سے بڑا ہوتا جاتا ہے۔
بات ہے بہت سادہ لیکن ہم ہیں کہ اسے سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ہمیں مسلمان ہونے کے ناتے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم جن افراد کو ایوانوں میں صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے قوانین بنائیں اور ہمیں بتائیں کے ہمیں اپنی زندگی کن اصولوں پر عمل کرکے گزارنی چاہیے، وہ سارے منتخب افراد بجائے قوانین بنانے یا ان کو مزید بہتر کرنے کے، ملک کی دولت پر کنڈلی مار کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ انہیں عوام نے خون پسینہ بہا کر کس لیے ایوانوں کی زینت بنایا تھا۔ خرابی در اصل دو طرفہ ہے۔ جب ہم نے یہ مان لیا ہے کہ ایوانوں کا کام قانون سازی ہے یا بالفاظ دیگر انسانوں کا کام زندگی گزارنے کے لیے قوانین وضع کرنا ہے تو پھر کون بیوقوف انسان ایسا ہوگا جو اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارے۔ قانون بنانے والے کیسے ایسا قانون بنا سکتے ہیں جو قانون بنانے والوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر رکھ دے۔ جب قانون سازی کا سارا اختیار چند منتخب لوگوں کے ہاتھوں میں دیدیا جائے گا تو پھر وہ چند ہاتھ قانون کی جو بھی دفعہ بنائیں گے اس میں وہ اپنے لیے پورے پاکستان سے زیادہ مراعات کیوں نہیں رکھیں گے جس کی سب سے بڑی مثال ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کا اپنی مراعات و تنخواہ میں بے پناہ اضافہ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ وہ اپنی زندگی کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی قانون بنائیں۔ جب یہ فرما دیا گیا ہے کہ ’’ہم نے آج دین مکمل کر دیا ہے‘‘ تو پھر اس میں مزید قانون سازی کی گنجائش اللہ سے انکار کرنے والے ہی نکال سکتے ہیں، صرف یہی نہیں کہا کہ ہم نے دین مکمل کر دیا ہے بلکہ یہ بھی فرما دیا ہے کہ میں نے دین ِ اسلام کو تمہارے لیے پسند کیا ہے۔ اتنے واضح احکامات کے باوجود جب ہم ’’قانون ساز‘‘ اسمبلیان بنائیں گے اور اللہ کی مرضی کے بجائے اپنی پسند کے قوانین بنائیں گے تو پھر جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ تو ہوگا ہی۔ سیاست کو گالی و مرضی نہ بنائیں اسے اللہ کے حکم کے تابع کریں۔ قوانین بنانے یا وضع کرنے سے اپنے ہاتھ کو کھینچ لیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے قیامت تک کے لیے قانون بنا دیا ہے جس سے انحراف کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں۔ جب تک ہم اللہ سے بغاوت پر قائم رہیں گے، تباہی و بربادی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔