کشمیر پر چین کی بڑھتی ہوئی سرد مہری

683

وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ٔ چین کے بعد سنتالیس صفحات پر مبنی جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ پاکستان اور چین کے روایتی تعلقات کا مظہر ہے۔ اس اعلامیے میں دونوں ملکوں کے دوستی اور تعاون کے امکانات کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کو جاری رکھنے اور توسیع دینے کی بات بھی پرزور انداز میں دہرائی گئی ہے۔ اس اعلامیے کے بعد چین کی طرف سے کچھ مالی تعاون کی خبریں بھی آنے لگی ہیں گویا کہ چین نے پاکستان کے موجودہ معاشی بحران سے لاتعلق رہنے کا رویہ تبدیل کر دیا ہے۔ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہو سکتی ہیں جو چند ماہ میں سامنے آئیں گی کیونکہ حالیہ چند ماہ میں چین کی ناراضی کا پیمانہ مختلف حوالوں سے چھلکتا نظر آرہا تھا۔ چینی وزیر خارجہ کا ایران میں یہ کہنا کہ ایران کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک ٹیلی فون کال پر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا اور چین کے دفتر خارجہ کا آزادکشمیر کے لیے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی اصطلاح کا استعمال اسی بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ اب چین اور پاکستان کے درمیان پس پردہ کچھ مثبت باتیں ہوئی ہیں جن کا مظہر یہ اعلامیہ ہے مگر اس اعلامیے میں جو بات دھیمے سُروں میں بیان کی گئی ہے وہ کشمیر ہے۔

اعلامیے کے مطابق پاکستان نے چینی قیادت کو کشمیر پر بریف کیا جس کے بعد دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت پرامن انداز سے حل ہونا چاہیے۔ یہ اعلامیہ پاک چین روایتی دوستی اور تعلق کا مظہر تو ضرور ہے مگر یہ کشمیر کے حوالے سے چین کا اس جوش وجذبے اور عزم سے خالی ہے جس نے پانچ اگست 2019کے بھارت کے یک طرفہ قدم سے جنم لیا تھا۔ یہ اعلامیہ پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات اور آزادی وخودمختار ی کے عزم کے ساتھ ساتھ کشمیر کے زودار تذکرے سے خالی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے چین اور پاکستان کے تمام اعلامیوں میں پانچ اگست کے فیصلے کو یکطرفہ قرار دے کراس کی مخالفت کی جاتی تھی۔ عمران خان اور شی چن پنگ کے مشترکہ اعلامیہ میں پانچ اگست کے یک طرفہ اقدام کی کھلی مخالفت شامل تھی مگر اس بار پانچ اگست کو بھولی بسری یاد بنایا گیا یوں لگتا ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات روایتی دائرے میں واپس آگئے ہیں۔

پاکستان میں حالیہ رجیم چینج کے بعد امریکا اور پاکستان کے ساتھ چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لیا ہے۔ پاکستان نے اپنے رجحان کا پلڑا چین سے دوبارہ امریکا کی طرف کر دیا ہے۔ ماضی قریب کے اعلامیوں میں چین کی طرف سے پاکستان کی سلامتی اور خودمختار کے تحفظ اور کشمیر پانچ اگست کے یکطرفہ قدم کی مخالفت کا واضح اظہار ملتا تھا۔ موجودہ اعلامیہ میں سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند پاک چین دوستی کا انداز تو ملتا ہے مگر ان دوباتوں کا ذکر نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا کا جادو اپنا کام دکھا چکا ہے اور پاکستان اور چین کے تعلقات واپس دوطرفہ حد تک آچکے ہیں۔ پاکستان اور چین میں امریکا کے لیے تشویش کا پہلو اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس میں کسی تیسرے ملک کا کردار شروع ہوتا ہے۔ پاکستان اور چین کے باہمی تعلق میں ولن کا تیسرا کردار بھارت تھا۔ جب پاکستان اور چین مشترکہ دفاع کی بات کرتے ہیں تو بھارت اسے دومحاذوں کی جنگ قرار دیتا ہے یعنی ایسی جنگ جس میں بھارت کو بیک وقت چین اور پاکستان کی فوجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت میں اچھا خاصا ملٹری بلڈاپ اور تیاری اس دومحاذوں کی جنگ کے تصور گرد گھوم رہا ہے۔ بھارت میں اس خطرے کے مقابلے کے لیے بہت تیاری ہوچکی ہے۔

امریکا کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان اور چین کسی بھی جنگ میں مشترکہ طور پر بھارت کے خلاف نہ کود پڑیں۔ 1962 کی چین بھارت جنگ میں امریکا نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کا جھانسا دے کر کشمیر میں پیش قدمی سے روکا تھا۔ پاکستان کی قیادت نے اس جھانسے میں آکر چین بھارت جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچالیا۔ یہ عارضی تدبیر ثابت ہوئی۔ جس جنگ سے پاکستان نے دامن بچالیا تھا ٹھیک تین سال بعد 1965 میں وہ جنگ پاکستان کو تنہا لڑنا پڑی اور اس کا کوئی نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوا۔ اب حالات کے چرکے اور دھوکے کھا کر پاکستان نے بھارت کے مقابلے کے لیے چین کے ساتھ تعاون کرنے کا راستہ اپنایا تھا۔ یہ اسٹرٹیجک تصور بھارت کے لیے ڈراونا خواب تو تھا ہی مگر امریکا کے ڈاکٹرائن کے بھی خلاف تھا۔ اس لیے امریکا نے پاکستان کو ڈرا دھمکا کر دو محاذوں کی جنگ سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اسی طرح کشمیر پر چین کا سرگرم کردار اب ٹھنڈے ٹھار ردعمل میں ڈھل رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پانچ اگست کے قدم کو تقدیر کا لکھا سمجھ لیا گیا ہے اور چین اس معاملے میں مدعی سست گواہ چست کا کردار کیوں کر ادا کرسکتا ہے؟۔