آزادی یا خونیں مارچ؟

629

حقیقی آزادی کے عنوان سے نکالے جانے والے لانگ مارچ کا آغاز جمعہ 28 مارچ سے لاہور کے مشہور لبرٹی چوک سے بالآخر کر دیا گیا۔ اس سے قبل کئی دفعہ تحریک انصاف قیادت کی جانب سے لانگ مارچ شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا لیکن کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جاسکا تھا جس سے شبہ ہوا کہ شاید تحریک انصاف کی قیادت اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہے اور اس کا ہوم ورک نامکمل ہے لیکن ارشد شریف کے کینیا میں پولیس کے ہاتھوں ایک مشتبہ کارروائی میں قتل کے اگلے ہی روز مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ لانگ مارچ اپنے آغاز سے قبل ہی اس وقت مشکوک ٹھیرا جب پی ٹی آئی ہی کے ایک بااثر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے ایک پریس کانفرنس میں مارچ کے خونیں اور پرخطر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔ فیصل واؤڈا کی پریس کانفرنس کا محرک خواہ کچھ بھی ہو لیکن مارچ کے آغاز سے اب تک بدقسمتی سے یہی ہوتا دیکھا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی اس وقت اپنی مقبولیت کے اس عروج پر ہے جیسے کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی ہوا کرتی تھی۔ مارچ شروع ہوا تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جس میں مرد، خواتین، بچے اور خصوصاً نوجوان بڑی تعداد میں عمران خان کے ساتھ تھے۔ لاہور سے مارچ میں شرکت کے لیے روانہ ہونے والے ایک ٹرک پر حسن بلوچ نامی شخص سوار تھا جسے اس کی موت مارچ میں کھینچ لائی تھی۔ حسن بلوچ مبینہ طور پر کسی درخت کی شاخوں سے ٹکرا کر چلتے ٹرک سے روڈ پر جاگرا اور جان کی بازی ہار بیٹھا۔ یوں وہ اس مارچ کے خونیں ہونے کا پہلا نشانہ بن بیٹھا۔ اس حادثے کے بعد بھی تحریک انصاف نے اپنی روایتی بے حسی کا اظہار کرتے ہوئی مارچ جاری رکھا اور پارٹی کے کسی رہنماء اور ذمے دار نے پیچھے مڑ کر متوفی حسن بلوچ کے اہل خانہ کو دلاسہ دینا بھی گوارہ نہ کیا۔
کچھوے کی رفتار سے چلتا مارچ جب دودن بعد اتوار 30 اکتوبر کو سادھوکی پہنچا تو وہاں چینل فائیو کی معروف خاتون رپورٹر صدف نعیم کی عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر المناک موت کا واقعہ ہوا جس کی تفصیل نہایت دردناک ہے۔ بتایا گیا ہے کہ صدف حقیقی آزادی کے لیے جاری اس تاریخی مارچ کے روح رواں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کے انٹرویو کا موقع حاصل کرنے کے لیے دو میل سے بھاگتی چلی آرہی تھی اور جب کنٹینر کے دروازے پر کسی طرح چڑھنے میں کامیاب ہوئی تو وہاں اسے روک لیا گیا۔ اس نے وہاں موجود پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر سے درخواست کی کہ مجھے انٹرویو کے لیے آنے دیں میں دو میل سے بھاگتی آرہی ہوں تو مبینہ طور پر انہوں نے جواب دیا کوئی بات نہیں دومیل اور بھاگ لو۔ صدف کنٹینر سے نیچے اتری تو دھکم پیل کا شکار ہوکر کنٹینر کے ٹائر کے نیچے آکر موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی۔ واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں افسوس ہے کہ آج ایک حادثے کی وجہ سے مارچ آج کے دن کے لیے روکنا پڑے گا‘‘۔ تیسرا افسوسناک حادثہ اس وقت پیش آیا جب گوجرانوالہ کے قریب کنٹینر کی زد میں آکر موٹر سائیکل سوار سمیر نواز نامی نوجوان ہلاک اور دوسرا نوجوان عثمان زخمی ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد ورثا نے کنٹینر کے سامنے آکر احتجاج کیا اور ان کے اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ جس کے بعد کنٹینر کے ڈرائیور کو گرفتار کرلیا گیا۔
پھر وزیر آباد میں ملکی تاریخ کا وہ سیاہ دن آیا جب وطن عزیز میں ایک اور سیاسی رہنما اور سابق وزیراعظم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ خوش قسمتی سے عمران خان کی جان تو محفوظ رہی لیکن وہ اور کچھ دیگر لوگ زخمی ہوئے اور ایک شخص جاں بحق ہوا۔ یہ صرف ایک سیاسی رہنما اور سابق وزیر اعظم پر نہیں بلکہ وطن عزیز کی سالمیت پر حملہ ہے۔ پہلے ہی مشکلات کے شکار پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور انتشار پھیلانے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ حکومت اور تحقیق و تفتیش کے متعلقہ ذمے دار اداروں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد اس واقعہ کے اصل حقائق تک پہنچیں اور ایسے اقدامات اٹھائیں کہ آئندہ ایسا نہ ہوسکے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جس طرح سے ملک میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ آگے بڑھایا جا رہا ہے اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کسی بھی چوک چوراہے پر کھڑا ہوکر کوئی بھی فوج کے خلاف جو دل میں آئے کہنے سے نہیں چوکتا چاہے اس کے اپنے گھر کے حالات جیسے بھی ہوں، اداروں کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنا ضروری سمجھتا ہے۔
ایک حیران کن پہلو یہ ہے کہ حملہ آور کی گرفتاری کے کچھ ہی دیر بعد پولیس کی جانب سے اس کا انٹرویو میڈیا پر نشر کردیا گیا جو ملکی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وقوعہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پیش آیا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ پھر پی ٹی آئی کے فیصل واؤڈا کا لانگ مارچ کے حوالے سے بیان جس میں انہوں نے خون خرابے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ یہ اور دیگر معاملات ظاہر کررہے ہیں کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
اس وقت ملک میں جگہ جگہ ہنگامہ آرائی اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جو اس نازک موقعے پر مناسب نہیں۔ ملک دشمنوں نے انتشار پھیلانے میں جزوی کامیابی تو حاصل کرلی لیکن پی ٹی آئی کارکنان کو اس وقت ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جن سے وطن عزیز کے دشمنوں کے ناپاک ارادے کامیاب ہوں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی چاہیے کہ روایتی مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر وہ واقعہ کی نہ صرف مکمل، جامع، شفاف اور نتیجہ خیز تحقیقات کو یقینی بنائیں بلکہ کیا ہی اچھا ہو کہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خود جاکر عمران خان اور دیگر زخمیوں کی عیادت اور جاں بحق ہونے والے معظم کے اہل خانہ سے تعزیت کرآئیں۔ اس سے نا صرف ملک میں کافی عرصے سے جاری سیاسی محاذ آرائی میں کمی ہوگی بلکہ ان کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔ اس حملے کا سب سے تکلیف دہ منظر وہ تھا جب اپنے لیڈر کو بچانے کی کوشش میں ایک کارکن معظم جان کی بازی ہار گیا۔ معظم مارچ میں اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ شریک تھا۔ کتنا دردناک منظر تھا وہ جب گولی لگنے کے بعد معصوم بچوں کے سامنے ان کا باپ گرا پڑا تھا اور وہ روتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کررہے تھے۔
اے صاحبان دل ! ذرا ان یتیموں کو بھی دیکھ لو۔ جو اپنے باپ کے ساتھ موجود تھے۔ ان کا سائبان ان کے سر پر تھا۔ لمحہ بھر میں وہ لاوارث ٹھیرے کیا کوئی ان کے سر پر بھی ہاتھ رکھے گا۔ یا سب سیاست سیاہ ست کھیلتے رہیں گے۔ کیا پی ٹی آئی کے ذمے داران ان یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھیں گے؟ کیا حکومت ان کی کفالت، ان کی تعلیم کا ذمہ لے گی؟