نہایت غیر مناسب جواب

591

کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی تبلیغ تو اسلام کی کر رہا ہو اور اس کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کہ آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں اسلام کو غلبہ ملنے کے بجائے اہل ِ کفر غالب آجائیں تو؟، جس پر آپ کا جواب اگر یہ ہو کہ ’’آجائیں مجھے کیا فرق پڑے گا‘‘ تو کیا یہ جواب کہیں سے بھی تک دانش مندانہ ہوگا۔ وہ تمام گروہ جو آپ کے ساتھ سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اور جان و مال کی قربانیاں دینے کے لیے کمر بستہ ہیں، ان کو مایوسی نہیں ہوگی۔ آپ کے ساتھ چلنے والے تو اپنا سب کچھ تج کر محض اس لیے آپ کے ساتھ ہولیے تھے کہ آپ کی منزل اسلام ہے لیکن آپ اس پر بھی خفا نہیں ہیں کہ آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں یہود و ہنود غالب آتے ہیں تو آجائیں کیونکہ اس سے آپ کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
ایک ایسا رہنما جس کے ساتھ عوام کا ایک جم ِ غفیر ہو، پیچھے پیچھے چلنے والے محض اس لیے اس کے ساتھ چلنے اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوں کہ وہ ان کو چوروں اور ڈاکوئوں کے ٹولوں سے نجات دلوائے گا، ملک کو لوٹنے والوں کو ان کے اصل انجام سے دوچار کرے گا، اسٹیبلشمنٹ کی منفی حمایت سے بننے والی حکومت کا خاتمہ کرے گا، پاکستان کو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں غلام نہیں بننے دے گا، پرانے پاکستان کو ایک نئی بہار دے گا، پاکستان کو حقیقی جمہوریت سے روشناس کرائے گا، لوگوں کے گلے میں پڑے ہوئے غلامی کے طوق کھلوا کر ہر قسم کی بولنے اور اظہار رائے کی حقیقی آزادی دلوائے گا اور 75 برسوں سے خفیہ طاقتوں کے ان ہاتھوں کو قلم کر دے گا جو ہر حکمران کی گردن کو جکڑے ہوئے رہتے ہیں اور پس پردہ حکمرانی کرکے عوامی نمائندوں کو اپنی یعنی عوام کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرنے دیتے۔ لوگوں کا عالم یہ ہے کہ جہاں جہاں سے بھی خان صاحب کا قافلہ گزرتا ہے، لوگ گھروں سے نکل کر شاہ راہوں کے کنارے جمع ہو کر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں، جو ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں، قافلے کے ہمراہ ہو لیتے ہیں اور جو چل نہیں سکتے وہ دعاؤں پر دعائیں دے رہے ہوتے ہیں۔ ہر دل یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ خان ان کے نجات دہندہ ہیں اور وہ بہر صورت ان کو چوروں اور ڈاکوئوں سے نجات دلا کر ہی اسلام آباد سے لوٹیں گے۔
عام انسانوں کی یہ سوچ اور خان صاحب کا یہ جواب کہ اگر ’’ملک میں مارشل لا لگتا ہے تو لگے‘‘۔ جواب اگر اتنا ہی ہوتا کہ ’’ملک میں مارشل لا لگتا ہے تو لگے‘‘ تو شاید قابل ِ برداشت بھی ہوتا لیکن اس کے آگے یہ کہنا کہ ’’مجھے اس سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘، نہایت اذیت ناک ہے۔ خان صاحب نے درست ہی کہا ہے کہ مارشل ہی کیا اگر پاکستان پر خدا نخواستہ، پاکستانیوں کے بجائے بھارتی، چینی، روسی یا امریکی حکمرانی بھی آ جائے تو وہ اشرافیہ کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں یا ملحدوں کے آنے جانے سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا کرتا۔ جب پورا بر ِصغیر فرنگیوں کی حکمرانی میں تھا تو تاریخ گواہ ہے کہ خان صاحب جیسے صاحب حیثیت خاندانوں کی زندگی پر کوئی منفی اثر نہیں تھا۔ آج کل بھی پاکستان میں جو بڑے بڑے رؤسا، سرمایہ دار، مل مالکان، سردار، وڈیرے، نواب، ملک، چودھری اور حرام کی دولت حاصل کرنے والے ہیں کیا ان کو کسی ملٹری ڈکٹیٹر، آمر، صدر یا وزیر اعظم کے آنے جانے سے کبھی کوئی فرق پڑا ہے۔ بے شک ملک غربت کا شکار ہو جائے، معیشت کا بھٹا بیٹھ جائے، لوگ نانِ شبینہ تک کے محتاج ہو جائیں، لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشیوں پر مجبور ہوں، اپنی اولادوں کو فروخت کرنے لگیں، بیماریوں سے مرنے لگیں، چوروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹنے لگیں یا گلی گلی قتل و غارت گری میں موت کو گلے لگاتے رہیں، کبھی ایسی حیثیت والے خاندانوں کو کوئی فرق پڑا ہے۔
دعویٰ تو یہ کیا جا رہا تھا کہ میں قوم کو حقیقی آزادی دلوا کر رہوں گا لیکن معلوم ہوا کہ وہی دھوکے اور فریب جو قوم پاکستان بننے سے پہلے کھاتی چلی آ رہی ہے، روپ بدل بدل کر قوم کو دیے جا رہے ہیں اور ہر مرتبہ قوم فریب پر فریب کھائے جا رہی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ مکانات سے شروع ہونے والے دھوکے کا سلسلہ، نیا پاکستان، ریاست مدینہ سے چلتا ہوا حقیقی آزادی دلانے کے دھوکے سے گزرتا ہوا اب ’’مارشل لا‘‘ لگائے جانے کی جانب محو ِ سفر ہے لیکن اس کے باوجود بھی کوئی ایک فرد یہ نہیں کہہ سکتا دھوکا دیتے رہنے کا یہ سلسلہ کسی منزل پر رکے گا بھی یا گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر قوم کو مایوسی کی ایسی دوزخ کی جانب لے جائے گا جہاں، آگ، پیپ، خون، اور خاردار غذا کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوگا۔
جس قوم کے رہنما کا یہ حال ہو کہ وہ قوم کو آزادی کے نام پر ایک ایسی آمریت کے مسلط ہوجانے کے احتمال کو دیکھتے ہوئے بھی اس عذاب سے بچانے کے عزم کا اظہار کرنے کے بجائے اس کی قبولیت پر بھی خوش ہو وہ بہر صورت قوم کا رہبر نہیں قزاق ہی ہو سکتا ہے جو قوم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر یہ کہے کہ قوم ڈوبتی ہے تو ڈوبے، جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے تو گھونٹ دیا جائے، لوگ بد ترین آمریت کا شکار ہوتے ہیں تو ہوا کریں، ان سے آزادی اظہار کا حق چھین لیا جاتا ہے تو چھین لیا جائے، سارے ٹی وی چینل، اخبارات، رسالے اور ریڈیو کسی ایک ظالم کی مٹھی میں آتے ہیں تو آجائیں مجھے اس سے کیا کیونکہ اس سے میری ذاتی زندگی پر کیا فرق پڑے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قوم خود فیصلہ کرے کہ ان کا لیڈر حقیقی آزادی کے نام پر اسے کس جانب دھکیلے لیے جا رہا ہے۔ اگر قوم نے اس بات پر غور نہیں کیا تو یہ تاریخ کی بہت بڑی غلطی ہوگی اور یاد رہے کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کیا کرتی۔