پاکستان کا معاشی مستقبل

576

پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہوگا، ملک دیوالیہ ہو چکا یا ہو ہونے جا رہا ہے، پاکستان میں سیاسی رسہ کشی کے کیا نتائج نکلیں گے، دوست ممالک کی مدد سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستان کی زبان پر ہیں اور وہ ان کے جوابات جاننے کا منتظر ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم تقریباً ساٹھ ٹریلین روپے ہو گیا ہے جبکہ اندرونی قرضوں کا حجم بھی تیس ٹریلین روپے کے قریب ہے۔ بیرونی قرضہ وزارت خزانہ کے مطابق اگست 2022، 126 ارب 6 کروڑ ڈالر، 2019 سے اپریل 2022 تک حکومت نے 12 ہزار 345 ارب کے قرضے لیے، پی ٹی آئی حکومت نے2019 سے اپریل 2022 تک 8 ہزار 181 ارب روپے مقامی قرضہ لیا، پی ٹی آئی حکومت نے 4 ہزار 164 ارب روپے بیرونی قرضہ لیا، پاکستان معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے قابل عمل پالیسی کی تلاش میں ہے۔ ان قرضوں کی موجودگی میں وطن عزیز تلاش میں ہے اس پالیسی کے جو پائیدار ترقی کے ہدف کو حاصل کرنے اور عالمی برادری میں باوقار مقام برقرار رکھنے میں مدد دے سکے۔ پاکستان اقتصادی مواقع کی تلاش میں ہے، ہم ایک قابل بھروسا پارٹنر چاہتے ہیں، جو معاشی بحران سے نکلنے میں ہماری معاونت کرسکے۔ خوش قسمتی سے، پاکستان کے پاس قابل اعتماد دوستوں کی ایک کہکشاں ہے جن میں چین، انڈونیشیا، ترکی، خلیجی ممالک، مغربی دوست، امریکا وغیرہ شامل ہیں، جو اچھے اقتصادی شراکت دار ہو سکتے ہیں۔ چین اپنے معاشی حجم، عالمی طاقت اور پاکستان کے ساتھ منفرد اور ہر موسم کے تعلقات کی وجہ سے سب کے درمیان نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ، چین پہلے ہی چین پاکستان اقتصادی راہداری اور غیر سی پیک پروگراموں کے ذریعے اقتصادی تعاون میں ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پیک معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے چین کی پاکستان میں کل سرمایہ کاری 15 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ ہواوے، ہائیر اور زونگ بڑے چینی سرمایہ کاروں میں شامل تھے۔ ہواوے نے اپنا آپریشن 1998 میں شروع کیا اور اب یہ 2018 میں 43 ملین ڈالر کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ 2015 میں صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان نے پوری حرکیات کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کے دورے کے دوران پاکستان اور چین نے سی پیک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ سی پیک سے متعلقہ توانائی کے منصوبوں نے کوویڈ 19 کے دوران 23,000 افراد کو ملازمتیں فراہم کیں۔ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کے انتظام میں سی پیک کا کردار ایک اچھی طرح سے قائم اور تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ توقع ہے کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ معاشی ترقی اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ صنعت کاری، زرعی ترقی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید کاری پر زور دینے سے پاکستان پائیدار ترقی کے ثمرات حاصل کرے گا۔ سماجی ترقی میں تعاون سے پاکستان کو معاشرے میں عدم مساوات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ چینی کمپنیوں نے پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی ہے جس کے کثیر جہتی فوائد ہیں۔ اس میں 6.4 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے اور اس سے 4,500 میگا واٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔ یہ تعمیراتی مرحلے کے دوران 16,000 ملازمتیں پیدا کرے گا۔ ڈیم پاکستان کو 1.2 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے میں مدد دے گا، جس سے غیر ہنر مند مزدوروں کے لیے روزگار کو فروغ ملے گا۔ اس کے علاوہ، یہ خوراک اور غیر غذائی مصنوعات کی بہتر پیداوار کے ذریعے صنعت کے لیے غذائی عدم تحفظ اور خام مال کی قلت سے نمٹنے میں مدد کرے گا۔ داسو، کروٹ اور آزاد پتن منصوبے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں نمایاں مثالیں ہیں۔ مختصراً، چین نے سی پیک اور غیر سی پیک تعاون کے ذریعے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ دوسری طرف یورپ اور امریکہ پاکستان کو جھکانے کے لیے بین الاقوامی تنظیموں آئی ایم ایف، فیٹف اور دیگر اداروں کو استعمال کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ یہ بیان بازی نہیں ہے؛ یہ عالمی سیاسی معیشت اور پاور پلے کے تجزیہ پر مبنی ہے۔ تجزیہ پاکستان کے لیے دو سبق بتاتا ہے۔ اول، پاکستان چاہے کچھ بھی کر لے، امریکا اور مغرب کبھی بھی
پاکستان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، جب تک کہ وہ سی پیک اور چین کو ترک نہیں کر دیتا، جو ممکن نہیں۔ دوسرا، امریکا اور مغرب بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیں گے، چاہے پاکستان چین کو چھوڑ دے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ امریکا اور چین شدید اقتصادی اور تجارتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ مارکیٹ کے سائز میں بڑے فرق کی وجہ سے امریکا چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چین 1.4 بلین لوگوں کی ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ یہ ملکی معیشت کو تحریک دے کر معاشی جنگ کا سامنا کر سکتا ہے۔ چین نے پہلے ہی ڈوئل سرکولیشن ماڈل اور ٹرا کو اپنا کر عمل شروع کر دیا ہے۔ توقع ہے کہ 2035 تک 400-600 ملین لوگ متوسط طبقے میں شامل ہو جائیں گے۔ ایچ ایس بی سی کا دعویٰ ہے کہ 2025 تک 160 ملین کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ، توقع ہے کہ 300-400 ملین لوگ اعلیٰ طبقے تک پہنچ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ 800-1,000 ملین لوگ طبقے کو تبدیل کریں گے، جس سے گھریلو استعمال کو بہت زیادہ فروغ ملے گا۔ لہٰذا، چین کسی بھی قسم کی پابندیوں کا سامنا کر سکتا ہے اور اعلیٰ اقتصادی ترقی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس کے برعکس امریکا صرف 333 ملین افراد کی مارکیٹ ہے جس کا چین سے کوئی موازنہ نہیں۔ یورپی ممالک، جو امریکا کے روایتی اتحادی ہیں، بھی زیادہ مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی منڈیوں میں صرف 750 ملین افراد شامل ہیں۔ مزید یہ کہ، دونوں مارکیٹیں سیر شدہ ہیں اور توسیع کے لیے زیادہ جگہ فراہم نہیں کرتی ہیں۔
اس صورت حال میں امریکا کے لیے بھارت ہی واحد آپشن بن کر ابھرتا ہے۔ بھارت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک طرف، ہندوستان اور دیگر مغربی ممالک اور اس نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے، ہندوستان منظور شدہ ممالک سے توانائی کی درآمدات میں چھوٹ کا لطف اٹھا رہا ہے۔ دوسری طرف، بھارت ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک، برکس کے نئے ترقیاتی بینک، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے ذریعے اور تجارت کو بڑھا کر چین سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تجارت 2021 میں 125 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اس تناظر میں پاکستان کو دو بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک دانش مندانہ اور اسمارٹ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کو پاک چین تعلقات کی پالیسی پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے۔ دوسرا، پاکستان کو امریکا کو بتانا چاہیے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ باہمی فائدہ مند تعلقات کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے لیکن بغیر کسی شرط کے۔ پاکستان کو متوازن پالیسی اپنانی ہوگی، کیونکہ پاکستان نے جتنا قرض لے رکھا ہے اس کے بعد کسی بھی وقت دیوالیہ ہونے کی گھنٹی بج سکتی ہے، ملک کو قرضوں کی معیشت سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہوگا، جس کے لیے انڈسٹریل گروتھ، برآمدات میں اضافہ ضروری ہے جو تب ممکن ہے جب ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری کریں گے، سیاسی عدم استحکام سے یہ ممکن نظر نہیں۔ آرہا ہے میری پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے لڑیں جھگڑیں لیکن اگر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے اور معاشی ترقی کا سفر شروع کرنا ہے تو ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھا ہو جائیں جس سے معیشت کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے ورنہ وطن عزیز کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔