ریڈ لائن کیوں کراس ہوئی

410

صحافی ارشد شریف کو کینیا میں قتل کر دیا گیا، اس واقعہ کے بعد ایک طوفان مچا ہوا ہے اور سین ایسا بنا ہوا ہے کہ جیسے صرف اس ملک میں ایک ہی طبقہ ہے جسے اس قتل پر دکھ ہے، نہیں جناب ایسا نہیں ہے، لبرل ازم کے نزدیک انسان کی تعریف کیا ہے؟ اسلام کہتا ہے انسان کی عزت کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے، یہ طبقہ آج سے نہیں، اس واقعہ سے نہیں ہمیشہ سے ایسے واقعات کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ وہ اپنی دکان داری چمکا سکے، یہ وہ طبقہ ہے جو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی محض اپنے مفاد کے لیے کوڑا لے کر نکل پڑتا ہے، معاشرے کی اخلاقیات کی کمر پر برسانا شروع کردیتا ہے، ارشد شریف کا قتل بلاشہ ایک بہیمانہ فعل ہے، اس کی تحقیقات ضروری ہیں لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار لبرلز کو نہیں دیا جاسکتا، فیصلہ قانون ہی کرے گا، نیروبی پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کا ناکہ لگا تھا، ڈرائیور کے نہ رکنے پر فائرنگ کرنا پڑی، پتا نہیں تھا اندر کون ہے تھا، ارشد شریف کے قتل پر وزیراعظم شہباز شریف، صدر مملکت عارف علوی، بلاول سمیت ملک کے تمام سیاسی راہنمائوں نے تعزیت کی وزیراعظم شہباز شریف اور کینیا کے صدر میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جس میں وزیراعظم نے ارشد شریف کے قتل کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کینیا پولیس کی جانب سے ارشد شریف کو غلط فہمی کی بنیاد پر فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ کینیا پولیس کا کہنا ہے کہ پاکستانی صحافی اپنے ڈرائیور کے ساتھ مگادی سے نیروبی کی جانب سفر کر رہے تھے پولیس روڈ بلاک کر کے چیکنگ کر رہی تھی۔ پولیس کو اس جیسی کار کی تلاش تھی۔ ڈرائیور کے ناکہ توڑنے پر پولیس نے فائرنگ کی، کینیا پولیس کا موقف ہے کہ ارشد شریف کی نیروبی مگاڈی ہائے وے پر آمد سے قبل گاڑی چھیننے اور بچے کو یرغمال بنانے کی واردات ہوئی تھی، ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا تاہم انہوں نے رکاوٹ کی خلاف ورزی کرکے آگے جانے کی کوشش کی پولیس نے گاڑی کے نہ رکنے پر فائرنگ کی۔
ملک میں ایک گروپ ایسا بھی سامنے آیا کہ جس نے اس واقعہ پر سیاست شروع کردی، حیرانی تو سابق ایم این اے نوشین سعید پر تھی جو ’’اب اٹھ کھڑے ہونے کا وقت ہے‘‘ کا سبق دے رہی تھیں، کس کے خلاف کھڑے ہونا ہے؟ حکومت کی تاکید تھی کہ ارشد شریف کے کیس میں مصدقہ حقائق تک قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے، اس واقعہ کے بعد ارشد شریف کی والدہ اور پاکستان میں کینیا کے سفیر سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں ان کی والدہ کو حاصل معلومات سے آگاہ کیا دفتر خارجہ بھی متحرک رہا کینیا میں پاکستان کی ہائی کمشنر ثقلین سیدہ کو صبح کے وقت ارشد شریف کی موت کی ابتدائی اطلاع موصول ہوئی جس پر ہائی کمشنر نے پولیس حکام اور وزارت خارجہ کے علاوہ دیگر محکموں کے سینئر حکام سے رابطہ کیا جبکہ تصدیق کے لیے کینیا کے نائب صدر کے دفتر سے بھی رابطہ کیا گیا، کینیائی نژاد پاکستانیوں کو بھی متحرک کیا گیا جس پر بتایا گیا کہ لاش نیروبی کے چیرومو فیونرل ہائوس میں ہے، ہائی کمشنر وہاں پہنچیں اور انہوں نے ارشد شریف کی میت کی شناخت کی اور میت کی جلد وطن واپسی کے انتظامات شروع کیے۔
صحافتی تنظیموں کی جانب سے ارشد شریف کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا کیا گیا ہے عالمی سطح پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا، ارشد کی والدہ غم کی پہاڑ بنی ہوئی ہیں، انہیں ایک مختصر وقفے میں ایک شوہر، اور اپنے دو بیٹوں کی موت کا غم سہنا پڑا ہے ارشد کے والد نیوی سے ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ ہوئے تھے، ان کی وفات ہوئی تو جنازے میں شرکت کے لیے ارشد کا چھوٹے بھائی جو فوج میں میجر تھے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی والد کے انتقال کی خبر ملی تو وہ اپنی گاڑی میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور تیز رفتاری کے سبب گاڑی بے قابو ہوگئی تھی اور ارشد کے بھائی اس اندوہناک سانحے میں خالق ِ حقیقی سے جا ملے تھے یوں ایک روز اس گھر سے دو جنازے اٹھے، اس روز ایسا منظر تھا کہ گھر میں باپ کی لاش پڑی ہو اور ارشد چھوٹے بھائی کی لاش کا انتظار کررہا تھا یہ قیامت کی گھڑی تھی، یہ کوئی فلمی سین نہیں تھا بلکہ حقیقت تھی اس روز ارشد نے بلا کا حوصلہ دکھایا۔
ارشد کی وفات پر ان کی اہلیہ جوریریہ صدیق کے گھر پہنچا تو ان کے والد محمد صدیق سے ملاقات ہوئی، وہ ارشد کو ایک نہایت نفیس شخص کے طور پر گواہی دے رہے تھے، وہ ارشد عجز و انکساری سے بھرپور انسان تھا اس نے بطور صحافی نہ جانے کتنی خبریں فائل کی ہوں گی انہیں کب معلوم تھا ایک روز خود ان کی خبر فائل ہورہی ہوگی کہ اور پوری دنیا ان کے پُراسرار قتل پر پریشان اور حیران ہوگی۔
ایک پرانی بات ہے غالباً 2009-10 کی بات ہوگی۔ اے آر وائی میں بیورو چیف کے لیے کس مناسب فرد کی تلاش تھی، میں نے اپنے دوست فصیح الرحمن مرحوم سے کہا کہ وہ خود آجائیں یا ارشد شریف سے بات کریں، اس موضوع پر مسجد الکوثر ایف سیون کے عقب میں ایک چھپڑ ہوٹل پر ان سے ملاقات ہوئی تاہم یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، وہ اپنی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنے والا شخص تھا، دوستوں کا دوست تھا، ایک نجی ٹی وی سے اس لیے نوکری گئی کہ ایک پروگرام، جس میں ان کے دوست شریک تھے اور پروگرام میں اسی نجی ٹی وی کی انتظامیہ کے بارے میں بہت ہی تلخ گفتگو ہوئی تلخی بڑھی اور اس حد تک بڑھ گئی کہ سیاست شروع ہوگئی اور ارشد سمیت ان کی پوری ٹیم فارغ کردی گئی۔ اس کے بعد پھر ارشد شریف کہیں ٹک نہیں سکا، ان کی وفات کے بعد جتنے منہ اتنی باتیں، مگر سچائی ابھی نہیں ملی تاہم مل جائے گی، نوبت یہاں تک کیوں پہنچی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ بہک گئے یا ان کے اندر کا سپاہی جاگ گیا تھا لہٰذا وہ آگے ہی بڑھتے رہے پھر ایک ایسا وقت آیا کہ ارشد سیلیبرٹی بن گیا لاکھوں لوگ اس کی بات کو سچ مانتے تھے ارشد کو وزارت کی پیش کش بھی ہوئی تھی مگر یہ کام نہ ہوسکا ملکی صحافت دراصل مشکل ترین پیشہ ہے اور یہاں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب نوکری سے فارغ کردیا جائے ایسے میں انسان بہک ہی جاتا ہے، اس طرح شیشے میں اتار لیے جاتے ہیں کہ انسان خود کو ملک کا مسیحا سمجھنا شروع ہوجاتا ہے اور پھر ریڈ لائن کراس ہو ہی جاتی ہے۔