کیا حل صرف جماعت اسلامی ہے؟

480

قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کی راہ نمائی کے لیے جو مسلم جماعتیں رائے عامہ کی تشکیل میں مصروف عمل تھیں، جماعت اسلامی ان میں سے ایک تھی، جو 1941 میں بنائی گئی، مسلم لیگ اور جے یو آئی ہند بھی اس وقت میدان عمل میں تھیں، پاکستان قائم ہوا تو جماعت اسلامی نے اسے مسجد کا درجہ دیا اور جدوجہد کا رخ اس جانب موڑ دیا کہ یہاں اسلامی نظام حیات کا عملی نفاذ کیا جائے، جماعت اسلامی تقسیم ہند کے بعد سے اب تک قومی سیاست میں حصہ لے رہی ہے اور اسے ملے جلے نتائج حاصل ہوتے رہے پارلیمانی سیاست میں عددی اعتبار سے اگرچہ کمزور رہی تاہم قانون سازی کے عمل میں اس کی شرکت قابل رشک رہی ہے، جماعت اسلامی کی پہلی اینٹ ممتاز عالم دین، مصنف، اسلامی اسکالر سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے 1941 میں رکھی، مولانا مودودی اسلام کے عملی نفاذ کے لیے ووٹ کے ذریعے اپنا سیاسی لائحہ عمل آگے بڑھانے پر یقین رکھتے تھے، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی، مصر کی اخوان المسلمین سے متاثر تھے تاہم پاکستان میں جماعت اسلامی اخوان المسلمین نہیں بن سکی، سید ابوالا اعلیٰ مودودی، پاکستان کو مذہبی سوچ دینے کے زبر دست ہامی تھے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے دستور کو اسلامی بنانے میں ان کا بڑا بنیادی کردار تھا، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ کام ان کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے سید مودودی کو پانچ مرتبہ دعوت دی تھی تاکہ وہ لوگوں کو اسلام کے بارے میں خطاب کر سکیں اور مولانا نے اس پیش کش کا بھرپور فائدہ اٹھایا، 1956 کے دستور میں اسلامی دفعات شامل کیے جانے کا سہرا سید مودودی کو جاتا ہے۔
پاکستان کے لیے اور یہاں کے معاشرے کی اسلامی تعلیمات کے مطابق فلاح و بہبود کے لیے ایک بڑے کردار کے باوجود جماعت اسلامی پارلیمانی سیاست میں عددی اعتبار سے وہ ہدف نہیں حاصل کرپائی جس کی بنیاد پر وہ تن تنہا آئین پر عمل درآمد کے لیے اختیار اور قوت حاصل کرتی، اس کی وجوہات جو بھی ہوں، ان کا تجزیہ بہت ضروری ہے، اور تجزیہ بھی غیر جانب دارانہ، جماعت اسلامی کی ساری تنظیم اور اس تنظیم کو چلانے والی اصل قوت، اس کے ارکان ہیں، اور تجزیہ بھی یہی سے شروع ہونا چاہیے ایک خیال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا انتظامی ڈھانچہ انقلابی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ٹھیک ہے لیکن پارلیمانی سیاست کے لیے حکمت عملی تبدیل ہونی چاہیے، تاکہ ترکی جیسی کامیابی مل جائے۔ ایک خیال یہ بھی کہ جماعت اسلامی ان شخصیات پر توجہ دے، جو بااثر بھی ہوں اور پارلیمانی سیاست کا معرکہ سر کرنے کے لیے بہتر وسائل رکھتے ہوں، اور یہ سب تنظیمی ڈھانچے یعنی دستور جماعت کے تابع رہے۔
جماعت اسلامی1970 میں میدان میں اُتری، مقابلے پر سرخے تھے اور دینی طبقہ بھی، خوب مقابلہ ہوا، نظریاتی سیاسی کشکمش میں جماعت اسلامی سرخرو ہوئی اور اس کے نہایت متحرک افراد پارلیمنٹ میں پہنچے، جن میں پروفیسر غفور احمد جیسا، ممتاز نام بھی تھا جنہوں نے1973 کے دستور اسلامی دفعات کا دفاع کیا بلکہ وسیع البنیاد مشاورت سے اسے یقینی بنایا۔ 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کا حصہ بنی، اس کے بعد 2013 تک کم و بیش 41 سال تک اتحادی سیاست کا حصہ رہی، پاکستان قومی اتحاد کے بعد آئی جے آئی اس کے بعد متحدہ مجلس عمل، اس دوران بھی خیبر پختون خوا میں حکومت ایک تجربہ کی حد تک رہی کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا جاسکا۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں ناکامی یا کامیابی کوئی ایشو نہیں، نتائج کا پہلے سے علم تھا تاہم وہ انتخابات میں حصہ لے کر صرف اپنے ہونے کا احساس دلایا گیا، عمران خان کی کامیابی ایک ایسے شخص کی کامیابی ہے، جس سے ’’گھر‘‘ والے راضی تو نہیں تاہم اس قدر بھی ناراض نہیں کہ اسے گھر ہی سے نکال دیا جائے، ضمنی انتخابات میں خیبر پختون خوا کے ضلع مردان، پشاور اور چارسدہ میں حالیہ ضمنی انتخابات میں تمام حلقوں پر جماعت اسلامی کے امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ مردان کے حلقہ این اے 22 پر جماعت اسلامی کے امیدوار عبدالواسع آٹھ ہزار 239 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ مقابلے میں پی ٹی آئی کے عمران خان اور پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا محمد قاسم تھے۔ چارسدہ کے این اے 24 پر جماعت اسلامی کے امیدوار مجیب الرحمن سات ہزار 883 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے جبکہ پشاور کے این اے 31 پر جماعت اسلامی کے امیدوار محمد اسلم تین ہزار 816 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے تھے…
یہ انتخابی نتیجہ کوئی حمتی معیار نہیں ہے، بس ضرورت ایک اچھے، جارحانہ بیانیہ کی ہے، اتفاق کی بات ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے بیش تر راہ نما جماعت اسلامی کی تربیت گاہ سے نکلے ہوئے ہیں اور فائدہ دیگر جماعتیں اٹھا رہی ہیں یہ گر سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اپنا بیانیہ کیسے کامیاب بنایا جائے، جارحانہ سیاست کے بغیر یہ ممکن نہیں، جماعت اسلامی کے پاس پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بیانیہ تیار کرنا ہوگا، درمیان والا بیانیہ نہیں چلے گا، آج کل ایک حکومت اور دوسری جانب حزب اختلاف کا بیانیہ ہے، جماعت اسلامی کو پارلیمنٹ میں ایک بڑی اور دو تہائی قوت کے لیے ایک ایسا عوامی بیانیہ چاہیے جو عام رائے دہندگان کو اپنی جانب مائل کرے اس وقت اس کا بیانیہ نظریاتی لوگوں کی حد تک ہی اپیل کرتا ہے لیکن عوام لوگوں کی ووٹ حاصل کرنے لیے طرز سیاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے دوسرا اہم نکتہ نوجوان ہیں، آج کل ووٹ کی تناسب سب سے زیادہ نوجوانوں کی ہی ہے، ’پی ٹی آئی کی پوری سیاست نوجوانوں کے گرد گھومتی ہے اور اس کی سوشل میڈیا کی ٹیم بہت فعال ہے اور بروقت حملہ کرتی ہے اس کا پی ٹی آئی کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جماعت اسلامی کا سوشل میڈیا محدود اثرات رکھتا ہے ایک بڑی پارلیمانی کامیابی کے لیے بیانیے کو موجودہ حالات و واقعات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔