کوئی عہد وفا بھولا ہوا ہے

403

سب سے پہلے برادر عزیز محترم امیر العظیم کو مبارک باد کہ وہ میڈیا کی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں، ذرائع ابلاغ کے میدان میں ان جیسے نفیس انسانوں کی ضرورت ہے جو کارکن کے لیے خبر گیری کے علاوہ غم خوار بھی ہوں، تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ایسی صحافت دیکھی تھی جس نے ہندو اور انگریز راج کو تہہ تیغ کرڈالا، اسے لالچ کی ترغیب بھی دی گئی مگر یہ زہر ہلاہل کو قند نہ کہہ سکی۔ قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی صحافت نے کیا دیا؟ یہ ہمارا مشرقی بازو نہیں بچا سکی اور نہ ووٹ کی طاقت منوا سکی، جس کا جب جو جی چاہتا ہے انتخابات میں مرضی کے نتائج کے لیے ووٹ کا بازو مروڑ دیتا ہے، اس کی پسلیاں توڑ دی جاتی ہیں اور اسے انگوٹھے کے نیچے رکھ کر کسی کے گلے میں شکست اور کسی کے لیے فتح کی تختی لٹکا دی جاتی ہے، جمہوریت ایک مسافر کی مانند گھر کا راستہ بھولی ہوئی ہے اور کوئی اسے راستہ دکھانے کی ہمت اور جرأت نہیں کر رہا، اپنے پینتیس سالہ صحافتی کیریئر میں اب تک یہی دیکھا ہے کہ ملکی صحافت نے ہر آنے والے اور چڑھتے سورج کو سلام کیا ہے، تو بلاشبہ ایک ایسے ماحول میں ہمیں بہار تازہ کی ضرورت ہے، تاکہ وہ ہمیں یہ سبق دے کہ ووٹ کو عزت دو کے ساتھ ساتھ عزت والے کو ووٹ دو بھی اپنی منزل بنانی چاہیے۔
اب عزت کیا ہے؟ عزت والا وہی ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اور وہ اپنی رعیت میں آنے والے کے حقوق سے واقف بھی ہو، اللہ کرے یہ ہم یہ منزل جلد پالیں، فی الحال تو ہمیں اپنا معاشرہ خوفناک کرپشن، نا انصافی، بدامنی، طاقت ور کے لیے الگ قانون اور کمزور کے لیے الگ قانون میں لت پت نظر آرہا ہے اور حکمران ہیں کہ ہر سماجی ناانصافی پر چند ٹویٹس جاری کرکے اپنا فرض پورا کرلینا ہی کافی سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانی ہمدردی کا فرض پورا ہوگیا، تلخ حقائق ہیں اور المیہ یہ ہے کہ معاشرے کی اشرافیہ نے چپ سادھ رکھی ہے بار بار ایک سوال دماغ کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ ہم من حیث القوم کہاں جا رہے ہیں؟ سوچ سوچ کر دماغ کی رگیں تن جاتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے ہم کیسا پاکستان چھوڑے جا رہے ہیں؟ اب تو بولنے سے بھی ڈر لگتا ہے، قلم اٹھانے سے ڈر لگتا ہے، ہم نے کیسے کیسے المیے دیکھے ہیں، سانحہ ساہی وال کو گزرے چند سال ہوچکے ہیں مگر آج تک اس سانحہ میں بچ جانے والے دو بچے اور ان کی معصومیت اندر سے جھنجھوڑ رہی ہے اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ کو بہن بھائیوں کو کس جرم میں مارا گیا؟ پورا معاشرہ بھی مل کر اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا کہ ان بچوں کے بابا کو کیوں مارا گیا؟ یہ سوال یہی ختم نہیں ہوجاتے، اور یہ سوال صرف یہ بچے ہی نہیں کر رہے، یہ سوال وہ سب بیگناہ کر رہے ہیں جنہیں نا حق مارا گیا ہے پاکستان کو جلد ہی ان سوالوں کا جواب دینا ہو گا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد سیاسی لائحہ عمل بنایا تو فیصلہ کیا کہ دونعروں پر سیاست ہوگی’مجھے کیوں نکالا‘ اور دوسرا تھا ’ووٹ کو عزت دو‘ اب عمران خان اسی راستے پر چل رہے ہیں، لیکن پاکستان کے معاشرے کو ایک مثالی اسلامی معاشرہ بنانے کا فرض انہوں نے پورا کیا یا نہیں اس پر ان دونوں میں سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ سوال کا جواب شاید پو پھوٹنے پر ملے گا جب تاریک رات گزر جائے گی ملکی تاریخ میں کب ایسا ہوگا؟ اس سب کے باوجود ایک بات طے پائی کہ تجربات، مشاہدات اور ضروریات نے کسی بھی حکومت کو سیکھنے کا کافی موقع دیا مگر سیکھا کسی نے نہیں۔
آج کیا ہے؟ ملک معاشی طور پر تباہ کن صورت حال کا شکار ہے، معیشت کی کنجیاں آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہیں، سفارتی ناکامیوں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے اور ملک سنبھالنے کی ذمے داری تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں سے کسی نے پوری طرح نہیں نبھائی، عمران خان پہلے امریکا سے فون کا انتظار کرتے رہے اور جب ایسا نہیں ہوا تو اسی امریکا پر مداخلت اور سازش کا الزام لگا دیا اور خوف زدہ اس قدر کہ کر اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ امریکا کا نام بھی مت لینا، اور اس کے باوجود دعویٰ ہے کہ وہ قوم کو خود دار بنانے جارہے ہیں مثالیں مہاتیر محمد کی، اور اپنے ارد گرد جمع افراد میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی کارکردگی مثالی ہو، قومی اسمبلی، عوام کی منتخب نمائندہ فورم ہے، صدر مملکت نے خطاب فرمایا تو 4 فی صد ارکان ایوان میں تھے،96فی صد نے سربراہِ مملکت صدرِ پاکستان کا خطاب سننا گوارہ ہی نہیں کیا صدر کو بھی اپنی حیثیت کے بارے میں سوچنا چاہیے، قائدِ ایوان خود ایوان میں موجود نہ ہو تو بے توقیری کوئی اور نہیں قائد ِ ایون خود کررہا ہوتا ہے مشترکہ ایوان سے خطاب: صدر مملکت چاہیں تو تاریخ میں گم ہوجائیں یا سمت دکھانے والے ہیرو! فیصلہ خود ہی کرلیں۔