عافیہ کی موت کی افواہ، بار بار کیوں؟

454

کسی کو اذیت دینے کے لیے کہا جائے کہ: تمہاری بیٹی مر گئی ہے۔ تمہاری بہن مرگئی ہے۔ تمہاری ماں مر گئی ہے۔ ایسا ہوتا ہے اور بار بار ہورہا ہے۔ جی ہاں! یہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کے ساتھ، ہر سال سوشل میڈیا پر افواہ اُڑا دی جاتی ہے کہ امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس سال 14 اکتوبرکو ڈاکٹر عافیہ کے انتقال کی افواہ سوشل میڈیا کے ذریعے چند منٹوں میں اس طرح وائرل کردی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ ہی نہیں، پاکستان، اسلام، انسانیت اور انصاف سے محبت کرنے والا ہر شخص پریشان ہو گیا اور ملک بھر سے تصدیق کے لیے رابطہ کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ایسی افواہ پھیلانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کو ذہنی اذیت پہنچائی جائے اور پاکستانی قوم کے مورال کو ڈائون کیا جائے۔
ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ ڈاکٹر عافیہ کی موت کی افواہ پھیلنے سے اہل خانہ اور عافیہ موومنٹ کے لاکھوں سپورٹرز کا اذیت میں مبتلا اور پریشان ہونا ایک فطری امر ہے لیکن اس کا دوسرا مثبت پہلو یہ برآمد ہوا کہ اس افواہ پھیلنے کے چند منٹ کے اندر ہی سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عافیہ کے سیکڑوں سپورٹرز از خود سرگرم ہوگئے اور فوری طور پر واٹس اپ، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام وغیرہ پر ہزاروں کی تعداد میں عافیہ کے نام کی پوسٹیں اور پیغامات گردش (viral) کرنے لگیں جن میں لوگ دل کی گہرائیوں سے ڈاکٹر عافیہ کی زندگی، صحت اور ایمان کی سلامتی کی دعائوں کے ساتھ موت کی افواہ کے غلط ہونے کی دعائیں کرنے لگے۔ چند گھنٹوں میں ہزاروں لوگوں کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، بیٹے، بیٹی اور اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کے پیغامات موصول ہوئے۔ لوگ اپنے پیغامات میں دعائوں کے ساتھ حکمرانوں، ریاستی حکام اور سیاستدانوں کی بے حسی پر غم وغصہ کا اظہار بھی کر رہے تھے۔ اس موقع پر ملک بھر سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی و وطن واپسی کے لیے سوشل میڈیا پر ’’ٹیم عافیہ‘‘ کے نام سے سیکڑوں کی تعداد میں رضاکارانہ طور پر خدمات سرانجام دینے والے سپورٹرز ازخود سرگرم ہوگئے اور انہوں نے جھوٹ کے مقابلے میں سچ کا علم سربلند کرنے کا محاذ سنبھال لیا۔ عافیہ رہائی تحریک کا ایک حوصلہ افزا پہلو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی امریکی ناحق قید سے رہائی اور وطن واپسی کا مطالبہ ملک کے چاروں صوبوں سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے عوام کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ جب بھی کوئی مذہبی یا قومی دن آتا ہے تو اس موقع پر چاروں صوبوں کے لوگ عافیہ کو یاد رکھتے ہیں۔
آخر ڈاکٹر عافیہ سے پاکستان بھر کے لوگوں کی والہانہ عقیدت اور محبت کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ پاکستان کے قیام کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تحریک پاکستان کے دوران ایک نعرہ بلند کیا گیا تھا ’’پاکستان کا مقصد کیا؟ لاالہٰ الا اللہ‘‘ اس طرح پاکستان کو قائم رکھنے کے لیے بھی ایسے ہی ایمان اور قومی غیرت کے جذبے کی ضرورت ہے جو الحمدللہ، عافیہ کی صورت میں ملک کو میسر ہے یعنی ’’عافیہ سے رشتہ کیا؟ لاالہٰ الا اللہ‘‘۔
عافیہ کے اہل خانہ کو اذیت دینے کے لیے صرف عافیہ کی موت کی افواہیں ہی نہیں اُڑائی جاتی ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عافیہ پاکستانی شہری نہیں ہے یا اس نے امریکی شہریت حاصل کر لی تھی یا وہ پاکستانی نژاد امریکی شہری ہے۔ اس نے کسی البلوچی نام شخص سے دوسری شادی کرلی ہے مگر ثبوت کسی بھی افواہ کا پیش نہیں کیا جاتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی نے (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) پاکستان کے ایک معروف صحافی حامد میر کے ایک ٹی وی پروگرام میں ڈاکٹر عافیہ کے پاکستانی پاسپورٹ دکھا کر بتا دیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صرف اور صرف پاکستانی شہری ہے۔ امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈاؤنز جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تحریریں لکھی تھیں مگر وہ بھی امریکی عدالت کی نا انصافی اور عافیہ کے جرم بے گناہی کی 86 سالہ سزا دیکھ کر چلا اٹھا اور اس نے کہا تھا کہ ’’میں ایک مردہ قوم کی ایک بیٹی کی سزا کا مشاہدہ کرنے عدالت چلا گیا تھا لیکن میں انسانیت کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنا سب سے زیادہ خراج تحسین پیش کرکے باہر آیا ہوں‘‘۔ کیونکہ عافیہ نے 86سال کی سزا کا فیصلہ سن کر اسی وقت بھری عدالت میں جج کو معاف کردیا تھا۔ مگر اس مرتبہ اور ہر مرتبہ جب بھی ڈاکٹر عافیہ کی موت کی افواہ پھیلائی جاتی ہے تو پوری قوم جس طرح کا ردعمل ظاہر کرتی ہے اس پتا چلتا ہے کہ الحمدللہ، قوم ابھی زندہ ہے، پاکستان کے دشمن جو لوگ بھی ہیں وہ قوم کا مورال ڈائون کرنے کے لیے اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کرتے ہیں مگر عوام کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عافیہ تو مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گی، موت تو ان حکمرانوں کو ان کی زندگی میں ہی آ جاتی ہے جو ایک بے گناہ پاکستانی شہری کو رہا کرانے کا اپنا دینی، قومی اور آئینی فریضہ ادا نہیں کر تے ہیں۔