ریاست مدینہ: چائے روٹی اور لمبا کرتا

627

سابق وزیراعظم عمران خان نے توہین عدالت کا مقدمہ خارج ہونے پر استہزائیہ انداز میں کہا ہے کہ اب مجھ پر چائے میں روٹی ڈال کر کھانے کا کیس بنانا رہ گیا ہے۔ عمران خان کو اپنے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ خارج ہونے پر بہت خوشی ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو زبردست فیصلہ قرار دیا اور کہا ہے کہ اسمبلی میں بیٹھیں گے سیاستدانوں سے بات ہوگی، چوروں سے نہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ طاقتور حلقوں سے مذاکرات ہورہے ہیں، ابھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کچھ کہنا مناسب نہیں۔ انہوں نے عدالت عالیہ اسلام آباد کے فیصلے کے بارے میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہمیشہ زبردست فیصلے کرتی ہے۔ دوسری طرف مریم نواز کا پاسپورٹ انہیں واپس مل گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی مریم نواز کے لیے ’’تاریخی‘‘ فیصلہ دیا ہے۔ عمران خان اور مریم نواز اپنے حق میں فیصلے پر خوش ہیں لیکن اگر ان کے خلاف کوئی فیصلہ آجائے تو عدالت حکومت کی ملازم، باندی اور نجانے کیا کیا ہو جاتی ہے۔ عمران خان ان ججوں کو نواز شریف کا لگایا ہوا جج کہتے ہیں جو ان کے خلاف کارروائی کریں یا فیصلہ دیں۔ دونوں رہنمائوں کا امتحان ابھی دوسرے مقدمات میں بھی ہونا ہے کہ آیا انہیں عدلیہ پر اعتماد ہے یا فیصلوں پر وہ بھی جو اُن کے حق میں ہوں۔ عمران خان اور مریم نواز دونوں کا معاملہ اس اعتبار سے ایک جیسا ہے کہ عمران خان پر مقدمہ کئی سماعتوں کے بعد فیصل ہوا اور عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ توہین عدالت کا نوٹس خارج کردیا جائے۔ شاید یہ عدلیہ کی جانب سے ازراہ ترحم رعایت دی گئی ہے جسے خان صاحب این آر او بھی کہتے ہیں۔ لیکن مریم نواز کا کہنا ہے کہ میرا پاسپورٹ اس کیس میں
ضبط ہوا جو کبھی میرے خلاف بنا ہی نہیں۔ گویا یہ بھی اسی طرح کا کیس تھا جس طرح کا شہباز شریف اور حمزہ کے خلاف تھا۔ یعنی تین سال بعد پتا چلا کہ کیس نہیں بنتا۔ یہ تماشا شب و روز ہوتا ہے۔ اس لیے اس قسم کے مقدمات اور ان کے فیصلوں پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔
عمران خان کا یہ کہنا کہ مجھ پر چائے میں روٹی ڈال کر کھانے کا مقدمہ بننا رہ گیا ہے۔ خان صاحب تو اس کھیل سے واقف ہیں جو اس ملک میں سیاستدانوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ چودھری ظہور الٰہی کو تو وہ جانتے ہوں گے۔ ان کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بنا تھا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ خان صاحب کے دور میں بھی اسی قسم کے درجنوں مقدمات مخالفین پر تھوپ دیے گئے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کب سلیکٹرز نیوٹرل ہوجائیں گے۔ جوں ہی سلیکٹرز نیوٹرل ہوئے وہ آسمان سے زمین پر آگرے۔ اب ان کے خلاف بھی اسی قسم کے مقدمات بن رہے ہیں جیسے انہوں نے بنوائے تھے۔ حیرت ہے عمران خان اپنے مخالفین کو چور کہہ رہے ہیں لیکن عدالت انہیں چوری ثابت کرکے کوئی سزا نہیں سنا رہی۔ خان صاحب کو سب پتا ہے، انہوں نے جو بات مذاقاً کہی ہے کہ چائے میں روٹی ڈال کر کھانے کا مقدمہ باقی رہ گیا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ مقدمہ بنانے والے یہ بھی بنا سکتے ہیں کہ چائے اور روٹی دونوں چوری کی تھیں اور اس کی منی ٹریل لائیں، روٹی کے پیسے کہاں سے آئے اور چائے کے کہاں سے۔ یہ مذاق نہیں ہے بلکہ یہ مذاق پاکستان میں بارہا ہوا ہے۔ ایک صاحب تھے مرتضیٰ بھٹو، ان کے خلاف ایک مقدمہ بنا درجنوں بار خصوصی عدالت میں پیشی ہوئی اور ان کے خلاف مقدمہ ثابت نہیں ہوسکا۔ بالآخر جج نے مرتضیٰ بھٹو کو ضمانت دے دی۔ اس طرح بے نظیر بھٹو کے خلاف وہ مقدمات قائم کیے گئے جو جرائم انہوں نے نہیں کیے تھے۔ لہٰذا حکومت بدلتے ہی عدالت نے مقدمات خارج کردیے۔ یہی معاملہ نواز شریف کا تھا۔ پاناما کیس میں معزول ہوئے اور اقامہ کیس میں سزا ہوگئی۔ عمران خان نے رانا ثنا کو اشارہ دے کر غلطی کی ہے، اب وہ چائے میں روٹی ڈال کر کھانے کا کیس بھی بنادیں گے۔ جب گھڑی، نیکلس اور تحائف کی فروخت کے کیس بن سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں بنے گا۔
اگر حقیقی جرائم پر مقدمات بنائے جائیں تو پوری پارلیمنٹ میں چند ایک ہی ملیں گے جو کسی جرم کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ کم از کم آئین کی دفعات 62,63 پر تو ارکان پارلیمنٹ کی بھاری تعداد نااہل ہوسکتی ہے لیکن اس دفعہ کو بروئے کار تو لایا جائے۔ یہ جو خان صاحب نے مذاقاً کہا ہے کہ چائے میں روٹی ڈال کر کھانے کا مقدمہ… ارے کیا ان کو نہیں معلوم ریاست مدینہ میں حکمران خطبہ دے رہا ہے اور ایک نمازی کہتا ہے کہ ہم تمہاری بات نہیں سنیں گے۔ پہلے یہ بتائو کہ اتنا لمبا کرتا کہاں سے بنایا۔ اور فاروق اعظمؓ تین براعظموں کے حکمران خاموش ہوگئے۔ اپنے بیٹے کو بلایا اور اس سے کہا کہ بتائو میرے پاس لمبا کرتا کہاں سے آیا۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں کو یکساں پیمائش کے کپڑے ملے تھے والد صاحب کا قد زیادہ ہے اس لیے میں نے اپنا کپڑا انہیں دے دیا۔ اس کے بعد نمازی نے کہا اب کہو… اور لوگوں نے بات سنی نہ خلیفہ وقت نے کہا کہ تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا اور نہ پوچھنے والے کو کسی قسم کی انتقامی کارروائی کا خوف تھا۔ یہ جو چائے میں روٹی کی بات ہے ریاست مدینہ کے حکمران تو اس سے بھی ڈرتے تھے کہ فرات کے کنارے بکری/ کتے کا بچہ بھی پیاس و بھوک سے مرجائے تو میری پکڑ ہوگی۔ اور یہاں اتنا بڑا دعویٰ کرنے والے حکمراں کا طرز رہائش تو دیکھیں۔ صرف عمران خان کو گرفت میں نہ لیا جائے۔ یہ نواز شریف، یہ زرداری، یہ شہباز، یہ اسحق ڈار، یہ اسد عمر، یہ بلاول، خورشید شاہ، سندھ کے حکمران پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے حکمران۔ کیا کام کرتے ہیں ان کے پاس تیس پینتیس گاڑیوں کا حفاظتی قافلہ کہاں سے آتا ہے۔ ایک گاڑی ایک کروڑ کی ہوتی ہے ان کی اپنی اس سے بھی زیادہ اور پھر گاڑی میں عملہ پانچ پانچ لاکھ ماہانہ والا۔ ان کے سامنے سڑک پر سپاہی بھی آجائے تو بے دردی سے کچل دیتے ہیں۔ عام آدمی کو تو شکار سے منع کرنے پر بھون دیتے ہیں۔ عمران خان خود گرم پانی میں اتر چکے ہیں اب وہ ایسی باتیں نہ کریں چائے روٹی والی۔ بلکہ ہار، گھڑی، فارن فنڈنگ اور ساری پارٹیوں کے چوروں کو جمع کرنے کا حساب دیں۔ خان صاحب ریاست مدینہ یکطرفہ نہیں دو طرفہ تھی۔