اور اب جنس کے انتخاب کا قانون

619

خدا اس حکمران طبقے کو غارت کرے چند دن کی شاہی کے لیے جو تمام حدود پار کر جاتے ہیں۔ نہ خوف خدا، نہ خوف فسادِ خلق۔ کیا پاکستان کے تمام مسائل حل کر لیے گئے کہ یہ فتنہ کھڑا کردیاگیا۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ جسے پردے میں رکھنے کے لیے پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ کا نام دیا گیا۔ 2018 میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے آخری مہینوں میں جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے یہ ان چند قوانین میں سے ایک تھا جس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا، تین ارکان نے اس کی بھر پور مخالفت کی لیکن کون سنتا ہے فغان درویش۔ جب یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوا تو وہاں پر حقائق واضح ہوئے کہ پاکستان میں کیا شیطانیت قانون بن کر نافذ ہو چکی ہے۔
کچھ عرصے سے ہمارے حکمرانوں کو ’’عالمی امن‘‘ کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی رائے عامہ کی خواہش پر پاکستان میں خواجہ سرائوں کی بڑی فکر ہوگئی ہے۔ اس بل کے حوالے سے بڑی چالاکی کے ساتھ خواجہ سرائوں کے معاملات سدھارنے کی کوشش ظاہر کی گئی ہے کہ یہ قوانین دراصل خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے جا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا اور ایسے لوگوں کو ان کی کمیونٹی میں شامل کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو دراصل ان کا حصہ نہیں ہیں۔ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 میں یہ کہا گیا کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی مرد اُٹھے اور اعلان کر دے کہ میرے اندر کی عورت بیدار ہوگئی ہے لہٰذا آج سے مجھے عورت سمجھا جائے تو نہ صرف اس کے دعوے کو قبول کیا جائے گا بلکہ اس کے مطابق اس کو دستاویزات یعنی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بھی جاری کیے جائیں گے۔
پاسپورٹ دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش زن و مرد سے آزاد کیا
اسی طرح اگر کوئی خاتون دعویٰ کرے کہ ’’رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ اور اب مجھے مرد سمجھا جائے تو اُسے مردوں کی صف میں شمار کیا جائے گا اور مردوں کے مطابق دستاویزات جاری کی جائیں گی۔ اس باب میں اسلام کیا کہتا ہے، ہمارے معاشرتی اور تہذیبی رویوں کی کیا پکار ہے چنداں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس اس خواہش کا حامل فرد آزردہ نہ ہو اور اس کے ریا کار سرپرست۔ معاشرہ اور مذہب کون ہوتا ہے اس بات کا تعین کرنے والا کہ مرد کا کردار گھر سے باہر ہے اور عورت کا کردار گھر کے اندر ہے۔ یہ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ خود انتخاب کرے کہ وہ کس کردار کو پسند کرتا ہے اور کس کردار کو اختیار کرنا چاہتا ہے۔ ایک انسان پیدا ہوتا ہے اس کے جسمانی خدوخال اور مخصوص عضویاتی علامتیں دیکھ کر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ مرد ہے اور یہ عورت تو معاشرہ اور افراد کون ہوتے ہیں اس بات کا تعین کرنے والے۔ شعور آنے پر وہ فرد اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے گا کہ وہ مرد ہے یا عورت۔ وہ خود فیصلہ کرے گا کہ وہ اپنے آپ کو کیا متعارف کرنا چاہتا ہے؟۔ یہ خدا کا اختیار نہیں ہے کہ وہ انسان کو مرد اور عورت بنائے بلکہ بنانے سے پہلے خدا کو انسان سے پو چھ لینا چاہیے کہ بتا تیری رضا کیا ہے؟ یہ بات نہ لطیفہ ہے اور نہ کسی تفنن کا اظہار خالص مغربی سوچ ہے۔ نعوذ باللہ۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یہ مغربی سرمایہ دارانہ سیکولر لبرل نظام جو دنیا کی بیش تر دولت پر سانپ کی طرح بیٹھا ہوا
ہے، مزدوروں اور ملازموں کو دنیا بھر میں بے روزگار کررہا ہے، سرکاری خزانے کو لوٹنے، ٹیکس چوری کرنے اور آکٹوپس کی طرح اپنے پائوں پھیلانے اور دنیا کو بیماری، بے روزگاری اور بے زاری میں مبتلا کرنے پر قانع نہیں ہے یہ دنیا کے ہر معاشرے اور سماج کی جڑیں کھو کھلی کرنا اور ایسی بلائوں سے دوچار کرنا چاہتا ہے جو سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیں، اور یہ سب کچھ کیا جارہا ہے آزادیوں کے تصور کی آڑ میں۔ آزادی عقیدہ، آزادی رائے، آزادی ملکیت اور شخصی آزادی۔ یہی شخصی آزادی کا تصور اس ’’قنون‘‘ کی بنیاد ہے۔ ہر شخص آزاد ہے اپنی سوچ، فکر اور معاملات میں۔ یہی آزادی کا تصور اسفل ترین سطح پر پہنچتا ہے تو پھر ہر شخص آزاد ہے جیسا چاہے، جیسا محسوس کرے وہ بن جائے حتیٰ کہ اپنی جنس کے بارے میں آزاد ہے کہ چاہے تو اِسے تبدیل کرلے۔ مغربی فکر اور نظریات اسے اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے محسوسات کے مطابق اپنی جنس کا تعین کرسکتا۔ مغرب میں ایک عرصے سے یہ معاملہ زیر بحث نہیں بلکہ حل کر لیا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنے آپ کو عورت محسوس کرتا ہے یا عورت خود کو مرد محسوس کرتی ہے تو اپنی شخصی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے قانونی طور اپنی جنس تبدیل کرسکتا ہے۔ اس صورت میں اسے وہ تمام قانونی حقوق حاصل ہوں گے جو قدرتی طور پر پیدا شدہ ایک مرد اور ایک عورت کو حاصل ہوتے ہیں۔ وہ تمام سہولتیں جو خواتین کو حاصل ہیں ایسے مردوں کو بھی حاصل ہوں گی جو عورت بن گئے ہیں اسی طرح وہ تمام سہولتیں جو مردوں کو حاصل ہیں ایسی عورتوں کو بھی حاصل ہوں گی جو مرد بن گئی ہیں۔ وہ پبلک مقامات، ٹوائلٹس اور مخصوص جگہیں جو صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہیں ایسے مرد بھی وہاں جاسکتے ہیں جو عورت بن گئے ہیں۔ یہی معاملہ عورت نما مردوں کے ساتھ ہوگا۔ اور سب سے
زیادہ تباہ کن بات جو دراصل اس منصوبے کی غایت اور مقصد ہے وہ یہ ہے کہ ایسا مرد جو عورت بن گیا ہے وہ کسی مرد سے شادی کر سکتا اسی طرح وہ عورت جو مرد بن گئی ہے کسی عورت سے شادی کرسکتی ہے۔ ہم جنس پرستی کے لیے اس سے زیادہ آسان صورت کیا ممکن ہے؟ اور اسے قانونی اور معاشرتی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔ ہر وہ آواز جو اس بے غیرتی اور قبیح حرکت کے خلاف اٹھائی جائے گی غیر قانونی تصور ہوگی اور ہر وہ فرد جو قوم لوط (سدوم) کے اس عمل کو روکے گا مجرم تصور ہوگا۔ اس ایکٹ کو نافذ کر نے والے اس ایکٹ کو لانے والے مستقبل میں پا کستان کو ایسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی اس ایکٹ کا حاصل اور بنیادی نکتہ ہے کہ مغرب کی آزادیوں کا تصور بھی پاکستان کے آئین اور قانون کا حصہ بن جائے۔
پاکستانی سماج اور معاشرہ یقینا ایک مثالی اور آئیڈیل اسلامی معاشرہ نہیں ہے لیکن یہ مسلمانوں کا عمومی مزاج ہے کہ وہ کھلے عام فحاشی کو برداشت نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے متعلقین کو فحاشی اور عریانی میں ڈوبا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ انفرادی اور محدود سطح پر یا پھر سماج کے ایک قلیل حصے میں تو ایسا ممکن ہے لیکن مجموعی طور پر مسلم معاشرہ اس رنگ میں رنگ جائے ممکن نہیں۔ اس باب میں مسلم معاشروں میں مغرب کو جو چھوٹی موٹی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مغرب اس طرح کے قوانین سے ان کی توسیع چاہتا ہے۔ یہ اسلامی قوانین اور براہ راست اسلام سے ٹکرانے کی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے اس قانون کی حقیقت سامنے آئی ہے تمام دینی حلقوں، سیاسی، مذہبی جماعتوں اور معاشرے کے مختلف طبقات میں بے چینی پیدا ہورہی ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے۔ جس طرح مغرب دین اور خدا سے بے نیاز ہو کر ٹھوکریں کھا رہا ہے وہ پوری دنیا کو اسی حال میں دیکھنا چاہتا ہے۔ باقی دنیا میں اسے کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے لیکن دنیائے اسلام؟
(جاری ہے)