صارفین بجلی سیپکو اور حیسکو کی عدلیہ سے اپیل

360

روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں ’’سندھ نامہ‘‘ کے تحت تجاویز لکھنے سے پیش تر راقم کا خیال تھا کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی عوام میں مقبولیت کے پیش نظر اب شاید پرنٹ میڈیا میں چھپنے والی کسی تحریر کی پہلی جیسی اہمیت اور اثر باقی نہیں رہا ہوگا۔ لیکن میری یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوگئی جب قارئین کی طرف سے نہ صرف سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں بلکہ لاہور، راولپنڈی اور بلوچستان تک کے کئی شہروں سے میری تحاریر پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا الحمدللہ! سچ تو یہ ہے کہ میرے لیے یہ امر باعث حیرت و استعجاب اور حوصلہ افزائی کا سبب بنا ہے۔ دریں اثنا بہت سارے احباب نے اپنے اپنے علاقے کے عوام کو درپیش مسائل اور مصائب کو بھی اجاگر کرنے کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ جس سے یہ اندازہ بخوبی قائم ہوجاتا ہے کہ عوام کتنے زیادہ سنگین مسائل اور تکالیف سے دوچار ہیں اور کس طرح سے ایک عام فرد اپنے مختلف النوع مسائل کے حل کے لیے پریشانی اور ذہنی اذیت سے دوچار رہتا ہے، لیکن اس کی فریاد پرکوئی کان نہیں دھرتا۔
سیپکو (سندھ الیکٹرک پاور سپلائی کارپوریشن) اور حیسکو (حیدر آباد الیکٹرک پاور سپلائی کمپنی) کے زیر انتظام علاقوں میں رہائش پزیر احباب کی ایک بڑی تعداد نے شکایت کی ہے کہ مذکورہ پاور سپلائی کمپنیوں کے افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت، رشوت ستانی، بدعنوانی اور چیرہ دستیوں نے ان کی زندگی اجیرن کر ڈالی ہے اور ان کا جینا ایک طرح سے بالکل محال کر ڈالا ہے۔ شدید ترین گرمی میں ان پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے دن اور رات کے بیش تر اوقات میں گھنٹوں پر محیط اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا ظالمانہ اور بے رحمانہ سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ایسے میں جائز طریقے سے بجلی استعمال کرنے والے صارفین ایک لحاظ سے دوگنے عذاب سے دوچار ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف تو انہیں سخت ترین گرمی میں لوڈشیڈنگ کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اور دوسری جانب شاید ہی کوئی ماہ ایسا گزرتا ہے جب انہیں سیپکو اور حیسکو کے بدعنوان اہلکاروں کی جانب سے بجلی چوری کے من گھڑت الزامات پر مبنی بھاری رقوم کے ڈیٹیکشن بل ارسال نہ کیے جاتے ہوں۔ جن کی ادائیگی کے لیے محدود آمدنی کے باعث ازحد دشوار ہوجاتی ہے۔ ناجائز ارسال کردہ ان بلوں کی درستی کارِ دار ہوتی ہے اور سیپکو، حیسکو کے ذمے داران ہر صورت یہ بل ادا کرنے پر مصر ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر ان کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے، جس کی دوبارہ بحالی کے لیے بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے۔ راقم نے جب ان شکایت کنندگان سے جواباً یہ کہا کہ آپ اپنے ساتھ روا رکھی گئی ان زیادتیوںکے خلاف مذکورہ پاور کمپنیوں کے اعلیٰ سطحی ذمے داران سے شکایت کیوں نہیں کرتے؟ تو میرے استاد محترم سابق ریجنل ڈائریکٹر کالجز سکھر ڈویژن پروفیسر نثار احمد سومرو بزبان سندھی گویا ہوئے ’’رڈھن اگیان رُباب و جائیندے ورھیا تھیا‘‘ مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا تو بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ سیپکو، حیسکو کے اعلیٰ افسران، چیئرمین تو رہے ایک طرف وفاقی وزیر پانی و بجلی، چیئرمین واپڈا، وزیراعظم کے قائم کردہ پورٹل سیل، نیپرا وغیرہ جہاں اور جس پلیٹ فارم مقام یا ذمے داران سے شکایت کی جائے تو بھی ازالہ نہیں کیا جاتا۔ جن افسران اور اہلکاروں کے خلاف شکایت کی جائے انہی کو تحقیق کے لیے مقرر کردیا جاتا ہے اور وہ پھر شکایت کرنے والوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ریجنل یا وفاقی محتسب بھی شکایت کی تحقیق کے لیے سیپکو اور حیسکو افسران کو خط لکھ دیتے ہیں جو ہمیشہ اپنے محکمے کے رشوت خور ملازمین کی حمایت میں رپورٹ تیار کرکے حکام بالا کو ارسال کردیتے ہیں جس کا نتیجہ اب یہ نکلاہے کہ سیپکو اور حیسکوکے بدعنوان عناصر اور زیادہ بدمست، بے لگام اور خوفِ خدا سے بالکل عاری ہوچکے ہیں۔ صارفین بجلی کے مطابق ان اسباب کی بنا پر اب آخر میں لے دے کر ان کے لیے اُمید کی آخری کرن چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان ہی رہ گئے ہیں۔ ان دونوں معزز شخصیات سے ہم دستہ بستہ ملتمس ہیں کہ ہمیں سیپکو اور حیسکو کے بدعنوان افسران اور رشوت خور اہلکاروں کے ظلم اور روا رکھی گئی زیادتیوں سے دائمی نجات کے لیے ازخود نوٹس، ہمارے جائز مسائل کے حل اور تدارک کی خاطر طریقہ کار وضع کیا جائے۔
راقم نے جب صارفین بجلی کی شکایات کے پیش نظر مزید معلومات مستند ذرائع سے حاصل کیں تو اس کا سابقہ افسوس ناک اور ہوش ربا انکشافات سے پڑا۔ سب سے اہم اور خطرناک بات یہ معلوم ہوئی کہ سیپکو اور حیسکو کے افسران اور اہلکار بڑی بے دردی اور سفاکی کے ساتھ اپنے اپنے اداروں کو بے حساب کرپشن کے ذریعے تباہی سے دوچارکرنے میں ہمہ وقت مصروف اور سرگرم عمل ہیں۔ ان اداروں میں عملے اور افسران کی کرپشن کی روک تھام کا قطعی کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ شدید ترین گرمی اور حبس آلود موسم میں مذکورہ پاور سپلائی کمپنیوں کے اہلکار محض 1500 روپے تا 5000 ہزار رشوت کے عوض ائرکنڈیشنز استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ جو لاکھوں یونٹس چوری ہوتے ہیں ان کا سارا بار اور وزن میٹر کے توسط سے بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے ماہانہ بلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور وہ ہر ماہ ہی اس وجہ سے جرم ناحق کی سزا بھگتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بلامبالغہ ہر شہر میں سیپکو، حیسکو کے افسران اور اہلکار اس طرح سے کروڑوں روپے رشوت وصول کرتے ہیں جو مجموعی طور پر اربوں روپے بنتے ہیں۔ سارا لائن لاسز کا بوجھ صارفین بجلی پر منتقل کرنا اور بذریعہ ڈیٹیکشن بل ان سے زبردستی ریکوری کرنا ایک ایسا ظلم ہے جس کا کسی سطح پر کوئی بھی ازالہ ایک عام صارف بجلی کا نہیں ہوپاتا۔ مجبوراً میٹر کے حامل صارفین بجلی بھی اپنے علاقے کے میٹر ریڈر یا ایل ایس، ایل ایم کو رشوت دے کر بجلی چوری کرنے لگ جاتے ہیں۔
یہ سب کیا دھرا بدنام اور بدعنوان سیپکو، حیسکو کے عملے کا ہے جو اپنے ہی محکموں میں نقب لگا کر اپنی عمارات کا دھڑن تختہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر علاقے میں کرپٹ اہلکار جو کروڑوں روپے کی رشوت بجلی چوری کرنے اور کرانے کی مد میں بٹورتے ہیں وہ ’’حصہ بہ قدر حبثہ‘‘ کے تحت اوپر کی سطح تک بڑی دیانت داری کے ساتھ باہم تقسیم کردی جاتی ہے۔ چوری شدہ یونٹس بعدازاں میٹر کے ذریعے بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں میں شامل کردیے جاتے ہیں جس کا تذکرہ پہلے بھی کیا جاچکا ہے۔ بیش تر علاقوں میں اکثر ٹرانسفارمر ناجائز کنڈا اور اے سی کنکشن کی وجہ سے اوور لوڈ ہونے کی بنا پر دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں جن کی دوبارہ مرمت اور تنصیب پر بھاری رقم خرچ ہوتی ہے جو سیپکو یا حیسکوکے بجائے صارفین بجلی باہم چندہ کرکے درست کراتے ہیں۔ جہاں چندہ جمع نہیں ہوپاتا تو کئی کئی ہفتے بلکہ مہینے بھی اہل علاقہ شدید ترین حدت اور تپش میں بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ جی جی کے مرتے ہیں اور مرمر کے جیتے ہیں۔ سیپکو اور حیسکو ملازمین نہ صرف خود مفت بجلی استعمال کرتے ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے رشتے داروں، دوستوں کو بھی دیتے ہیں اور فروخت بھی کرتے ہیں اس طرح سے بدعنوان اہلکار ہر سال ملک کی معیشت کو بھاری خسارے سے دوچار کرتے ہیں۔ لائن لاسز اور بجلی چوری پر قابو نہ پانے کی وجہ سے بجلی کے اخراجات کی مد میں پاکستان کا گردشی قرضہ کئی سو ارب پر مشتمل ہوچکا ہے۔ گزشتہ برس حکومت پاکستان نے واپڈا کو زرِتلافی کے طور پر 1100 ارب روپے اور امسال تقریباً 350 ارب روپے دینے کا اعتراف کیا ہے جو پاکستانی عوام اور صارفین بجلی پر ظلم کے مترادف ہے۔ یعنی ’’دُکھ سہیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں‘‘ کی سی المناک صورت حال ہے۔ گزشتہ دنوں سکرنڈ، نواب شاہ میں ٹرانسفارمر کی غلط اور ناقص تنصیب کا افسوس ناک نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرانس فارمر میں سے گرنے والے تیل کی وجہ سے نیچے کھڑے ہوئے تین معصوم بچے شدید جھلس گئے، جن سے بعدازاں دو نے دم توڑ دیا۔ قبل ازیں حیدر آباد میں ایسے ہی ایک المناک واقعے میں ٹرانسفارمر گرنے سے نصف درجن کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔