صداقت اور امانت کا غارت گر

741

صداقت اور امانت کے دعوے داروں کی ایسی کرپشن، چوری اور لوٹ مار کہ اعصاب جھنجھنا اٹھیں،خوش نما نعروں کی آڑ میں ایسے کریہہ اعمال۔ آٹھ برس طویل انتظار کے بعد بالآخر الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کی فارن یا ممنوع فنڈنگ کے بارے میں فیصلہ سنادیا گیا۔ 68صفحات پر مشتمل فیصلہ ممنوع ذرائع سے بڑی بڑی رقوم کے حصول کی ایک داستان ہے جس میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ فیصلے میں سیکڑوں ممنوع ذرائع کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں سے قانون، آئین اور سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے متعلق قوانین سے انحراف کرتے ہوئے غیر ملکی کمپنیوں سے بھاری رقوم حاصل کی گئی ہیں جن میں امریکا کی 266 برطانیہ کی 43 اور کینیڈا کی 13کمپنیوں سے ممنوع رقم وصول کی گئی۔ فیصلے میں 16بے نامی اکائونٹس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اکائونٹ چھپانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان نے نجی بینک میں اپنے دستخط سے کھلوائے گئے دو اکائونٹس ظاہر ہی نہیں کیے۔ ایک اکائونٹ میں آٹھ کروڑ سے زائد اور دوسرے اکائونٹ میں 51ہزار ڈالرز تھے۔ عمران خان نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے تحت پارٹی فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن میں اپنے دستخطوں سے جو بیان حلفی جمع کریا تھا اسے جھوٹا قرار دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اب عمران خان صادق اور امین نہیں رہے۔ تحریک انصاف نے 34غیر ملکی شخصیات اور 351غیر ملکی اداروں سے فنڈز لیے۔ پی ٹی آئی نے کمپنی ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے 21لاکھ 21ہزار 500 امریکی ڈالر کی ممنوع فنڈنگ کی جس کا خود عارف نقوی نے اعتراف کیا۔ ووٹن کرکٹ لمیٹڈ عارف نقوی کے ابراج گروپ کے تحت کام کررہا تھا۔ پی ٹی آئی کو 51لاکھ 22ہزار 218 ڈالرز اور 7لاکھ 92ہزار 265 برطانوی پائونڈز کے فنڈ ملے۔ پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر 83 کروڑ سے زائد کے ایسے فنڈز لیے جن کے ذرائع معلوم نہیں۔ پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر متحدہ عرب کی کمپنی برسٹل انجینئرنگ سروسز سے 49ہزار 965 ڈالرز کی ممنوع فنڈنگ لی جو متحدہ عرب امارات کے قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پی ٹی آئی نے بھارت کی چار کمپنیوں سے بھی فنڈز لیے۔ بھارتی نژاد امریکی خاتون رویتا شیٹھی سے بھی 13ہزار سات سو پچاس ڈالرز وصول کیے۔ سوئٹزر لینڈ کی کمپنی ای پلینیٹ اور برطانوی کمپنی ایس ایس مارکیٹنگ سے کل دس لاکھ ایک ہزار 741 ڈالرز کے فنڈز ملے۔ تحریک انصاف امریکا کے ذریعے دو ایل ایل سی کمپنیوں سے 25لاکھ 25ہزار 500 ڈالر تحریک انصاف پاکستان کو منتقل کیے گئے۔ یہ محض فیصلے کے چند نکات ہیں جو ہم نے درج کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ فیصلے کی ایک ایک سطر عمران خان کے صداقت اور امانت کے دعووں پر پہاڑ جیسا بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ایک مہینے سے زائد محفوظ رکھنے کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا۔ آٹھ سال پی ٹی آئی کی خواہش رہی کہ یہ معاملہ کہیں راہ میں ہی کسی اور سمت مڑ جائے۔ اس مقصد کے لیے نو وکیل تبدیل کیے گئے، 30کے قریب التوا کی درخواستیں الیکشن کمیشن کے حضور دائر کی گئیں۔ ایک اندازہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کی ممنوع یا فارن فنڈنگ کی گئی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ کمپنیوں سے فنڈز نہ لینے کا قانون 2017 میں بنا تھا۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ممنوع فنڈنگ کا معاملہ 1962ء میں ایوب خان کے زمانے ہی سے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کی ذیل میں سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات میں دخیل رہا ہے۔ اسی ایکٹ کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 میں بھی برقرار رکھا گیا یہاں تک ہی نہیں بلکہ الیکشن ایکٹ 2017 میں بھی اس قانون کو برقرار رکھا گیا۔ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوع فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے کہ کیوں نہ ان کے ممنوع فنڈز ضبط کر لیے جائیں۔ فیصلے کی کاپی نا اہلی کا ریفرنس دائر کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو بھی جاری کردی گئی ہے۔ وفاقی حکومت سے معاملہ یقینا عدالت عظمیٰ جائے گا جہاں عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بنچ کی جانب سے عمران خان کے حق میں جو فیصلے سامنے آئے، ان پر چاروں طرف سے جو تنقید کی گئی جو ردعمل سامنے آیا اور خصوصاً جوڈیشل کمیشن میں جج صاحبان کے درمیان جو کچھ ہوا اس کے بعد لگتا نہیں ہے کہ عدالت عظمیٰ کا کوئی جج یا کوئی بنچ اس روایت کو برقرار رکھ سکے جو عدالت عظمیٰ سے عمران خان کے حق میں منسوب ہو کر رہ گئی ہے
الیکشن کمیشن کا فیصلہ مکمل طور پر قانونی انداز میں دلائل اور ثبوتوں سے مزین بہت اعلیٰ انداز میں تحریر کیا گیا ہے جس میں لفاظی کے جوہر دکھائے گئے ہیں، نہ ڈائیلاگ کا سہارا لیا گیا ہے اور نہ ہی بلیک لا ڈکشنری کا۔ جو کچھ بھی ہے دستاویزات پر مشتمل ہے جس کے بعد عمران خان کے اس بیانیے کو کہ وہ صادق اور امین ہیں اور باقی سب چور اور ڈاکو ہیں زبردست دھچکا لگا ہے وہ دوسروں سے بڑھ کر چور اور ڈاکو ثابت ہوئے ہیں جس کے دفاع میں بھونڈے دلائل کے سوا بیان کرنے کے لیے عمران خان کے پاس کچھ نہیں۔ عمران خان مدتوں سے خود کو عوام کا دوست ہمدرد اور خیر خواہ ظاہر کرتے آئے ہیں جن کی مثل کوئی عوام کا بھلا چاہنے والا اور کرپشن کا خاتمہ کرنے والا نہیں لیکن جب انہیں موقع ملا تو ان کے دور میں پا کستان نے کرپشن کی بین الاقوامی رینکنگ میں سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ تمام تر دعووں کے باوجود ان کی حکومت ایک عوام دشمن حکومت ثابت ہوئی۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں ان کا بیش تر ایسے اشخاص سے گہرا تعلق نظر آتا ہے جو دنیا بھر میں فراڈ اور دھوکے بازی کے عظیم معاملات میں ملوث ہیں جن میں سے ایک ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی ہیں جو برطانوی پولیس کی حراست میں ہیں اور جو ایک ارب ڈالر سے زائد فراڈ کے معاملات میں ملوث ہیں جنہیں اگر امریکا کے سپرد کردیا گیا تو وہاں انہیں دوسو برس سے زائد کی سزا ہوسکتی ہے۔
عارف نقوی دنیا بھر میں امپیکٹ فنانسنگ کے علمبردار تھے، ترقی پزیر ملکوں میں فنانسنگ کے حامی۔ جہاں ان کے خیال میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع ہیں۔ جہاں سرمایہ کاری سے نہ صرف سرمایہ کاروں کو کثیر منافع کے حصول کے مواقع ملتے بلکہ ان ممالک کے غریب عوام کو بھی ترقی کے مواقع نصیب ہوتے۔ انہوں نے سرمایہ کاری کو فلاحی کاموں اور سوشل ویلفیئر کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ وہ فراڈ اور کرپشن کے بھی بے حد خلاف تھے جب کہ دوسری طرف وہ اپنے سرمایہ کاروں کا پیسہ بے دردی کے ساتھ خورد برد کررہے تھے۔ 1990 کی دہائی میں جب بل گیٹس افریقا گئے تھے اور انہوں نے وہاں غربت، بیماریوں کی کثرت اور صحت کے مسائل دیکھے تو انہوں نے بل گیٹس فائونڈیشن کے ذریعے افریقا میں فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھایا۔ اسی دوران ان کی ملاقات عارف نقوی سے ہوگئی جنہوں نے بل گیٹس کے سامنے افریقا میں اسپتال بنانے اور چلانے کے عظیم منصوبے پیش کیے۔ اس مقصد کے لیے بل گیٹس کی جانب سے جو رقوم انہیں مہیا کی گئیں ان میں سے ایک ڈالر بھی انہوں نے افریقا میں صحت کے شعبہ میں نہیں لگایا بلکہ کہیں اور اپنی ذاتی پراپرٹی کی خریداری میں انوسٹ کیے۔ عارف نقوی نے اپنے انویسٹرز کے اعتماد کے ساتھ کھلواڑ کر کے اگر ایک اتنی زبردست کمپنی کا ستیاناس کردیا ایسا ہی کچھ عمران خان نے تحریک انصاف پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ کیا ہے۔ عمران خان عوام کو عشروں سے لاحق زخموں کے علاج کے نام پر برسر اقتدار آئے تھے لیکن ان زخموں کو انہوں نے ناسور بنادیا، ریاست مدینہ سے لے کر کرپشن کے خاتمے تک کیسے کیسے خواب انہوں نے عوام کو دکھائے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی تعبیر دینا تو درکنار وہ خواب ہی جھوٹے ثابت ہوئے اور ان خوابوں کے علمبردار وہ خود بھی۔