حسن البنا شہید کی پاکستان سے محبت

432

آج جب کہ پاکستان کی 76 ویں سالگرہ منانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اس موقعے کی مناسبت سے حکومتوں کے ذمے دار، سیاسی زعماء علامہ محمداقبال، قائداعظم اور دوسرے مشاہیر کی تحریک تکمیل پاکستان کے حوالہ سے ان کی خدمات نوجوان نسل کی ذہنی آبیاری کے لیے اجتماعات اور سیمیناز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا خصوصی ایڈیشن نکالتے ہیں۔ میں نے ضرورت محسوس کی کہ تحریک تکمیل پاکستان کے حوالے سے عالم عرب کے مرکز مصر میں برپا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی عالم گیر اور منظم ترین تنظیم اخوان المسلمون اور اس کے لاکھوں جانثار کارکن اپنے عظیم اور فنافی اللہ اور فنافی الرسول شخصیت امام حسن البنا کی پاکستان اور قائداعظم کی جدوجہد سے پاکستان کے عوام کو آگاہی دوں۔ میرا یہ آرٹیکل جماعت اسلامی کے ماہوار رسالے ترجمان القرآن کے حسن البنّا شہید نمبر کے چیدہ چیدہ اقتباسات پر مشتمل ہے۔اخوان المسلمون نے فحاشی، بے حیائی اور ملحدانہ نظریات پر مبنی مغربی تہذیب پرکاری ضرب لگائی۔ مصر کے بادشاہ شاہ فاروق اول کو جب اپنا اقتدار خطرے میں نظرآیا تو اس نے اپنے آقا برطانیہ سے مدد طلب کی۔ چنانچہ برطانیہ نے اس خطرے سے نپٹنے کے لیے امام حسن البنّا کو شہید کرنے کی ہدایت کی۔ چنانچہ حسن البنّا کو دھوکے سے بلا کر پہلے سے تعینات فوج نے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے شہید کردیا۔ لیکن فوج نے شاہ فاروق اول کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرکے انورالسادات اور سفاک ترین جنرل جمال عبدالناصر نے اقتدار پر قبضہ کرکے اخوان کے لیڈروں، مفسرین، علماء کرام اور کارکنوں کی پھانسیوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری کردیا۔ مثلاً عربی زبان میں لکھی جانے والی عظیم تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے مصنف سید قطب مصری عدلیہ کے عظیم جج عبدالقادرعودہ کو پھانسی دے کر جہنم مول لی۔ پھر مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف جنرل سی سی نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرکے انہیں پنجرے میں بند کردیا۔ یہاں تک کہ وہ اسی
پنجرے میں شہید ہوگئے۔
اخوان المسلمون کے قائد حسن البنا قائداعظم کے شانہ بشانہ تحریک تکمیل پاکستان کی جدوجہد میں شریک سفر تھے۔ بھارت سے آزادی کی جنگ لڑنے کی جدوجہد کے نتیجہ میں تحریک تکمیل پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا اگر امام حسن البنا شہید نہ ہوتے۔ قائداعظم امام حسن البنا کے پرُخلوص تعاون سے کامیاب ہوتی تو آج پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔ دونوں قائدین کی تمنا ایک ہی تھی اور ایک ہی خواب کہ استعمار سے آزادی اور ایک ترقی یافتہ فلاحی اسلامی ریاست کا قیام۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام کا قائداعظم سے مسلسل رابطہ تھا اور دوسری جانب عالم عرب کی ہمہ گیر تنظیم اخوان المسلمون تحریک تکمیل پاکستان کی تائیدو حمایت کو اپنی دینی اور ملی ذمے داری سمجھتی تھی۔ دسمبر 1946ء میں قائداعظم کچھ دنوں کے لیے مصر میں رُکے تو اخوان المسلمون کے قائدحسن البنّا سے متعدد ملاقاتیں کیں اور باہمی مشاورت کی۔ اس دوران امام حسن البنّا نے قائداعظم کو قرآن حکیم کا ایک خوبصورت نسخہ تحریک پاکستان کی علاقائی حمایت وتائید کے لیے بطور ہدیہ پیش کیا۔ یہ نسخہ آج بھی کراچی میں مزار قائداعظم پر موجود نوادرات میں نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔
بہرحال یہ عرض کرچکا ہو ں کہ کفر، منافقت اور ظلم کی حکمرانی سے آزادی، اسلامی ریاست کا قیام، زندہ ضمیر مسلمان کا خواب ہے۔ تحریک تکمیل پاکستان کی بازگشت جب سمندر پار پہنچی تو یہ خواب دیکھنے والے لاکھوں لوگ اس کی کامیابی کے لیے نہ صرف دُعاگو رہے بلکہ قائداعظم کے پشت بان بن کر ان کے شانہ بشانہ رہے۔ یہ منافقت ہے یا پاک پشت بانی تھی۔ اگر امام شہید نہ ہوتے اور قائداعظم کی زندگی مزید وفا کرتی تو دنیا دیکھتی کہ اخوان المسلمون اور اس کے عظیم قائد کس طرح مسلمانان ہندکی بھارتی استعمار سے آزادی کے لیے پیش پیش ہوتے۔ قائداعظم نے 16 دسمبر 1946ء کو قاہرہ پہنچنے پر ایک بیان میں کہا کہ مصر کو یہ سمجھ لیناچاہیے کہ مسلم ہند کس مقصدکے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں؟ یہ مصر کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہند کے لیے۔ اگر ہم حصول پاکستان میںکامیاب ہوئے تو یہ مصر کے لیے بھی اچھا ہوگا۔ اور اگر ہم پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ کتنا خطرناک ہوگا اگر ہم ناکام ہوجائیں تو جب پاکستان قائم ہوجائے گا تب بھی ہم یعنی ہندی اور مصری مسلمان حقیقت میں آزاد ہوں گے۔ وگرنہ ہندو سامراج کی لعنت اپنے پنجے مشرق وسطیٰ کے اس پار تک پھیلا دے گی۔ قاہرہ میں ایک ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے 18 ستمبر 1946ء کو کہا ’’اگر ہند میں اسلام کا خاتمہ ہوا تو دیگر مسلم ممالک میں اسلام کا خاتمہ ہوگا۔ اگر ہم ڈوب گئے تو سب ڈوب جائیں گے‘‘۔ (اس مرد قلندر کی اس پیش گوئی کی حقیقت آج آشکارا ہورہی ہے جب اس نے آزادی کا نعرہ لگایا تھا) پھر قاہرہ ریڈیو سے 19 دسمبر 1946ء کو نشری تقریر میں وضاحت کی کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ان دو خطوں میں جہاں ایک مسلم حکومت اپنے علاقوں کی فرمانروا ہے وہاں ہم ایک خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسرکریں اور ان تمام اقتدار کا تحفظ کریں جن کا علمبردار اسلام ہے اور یہ 10 کروڑ مسلمانوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔
امام حسن البنا شہید مسلم لیگ کے مقصد، تخلیق پاکستان کے زبردست تائید کنندگان میں شمار ہوتے تھے۔ پروفیسر خورشید کے بقول اخوان المسلمون کے نوجوان رہنما سعید رمضن نے بتایا کہ وہ اور اخوان المسلمون کی قیادت کے مرکزی رہنما تحریک پاکستان کے تائید کے لیے مصر کے طول وعرض میں پرُجوش تقاریر کرتے تھے۔ امام حسن البنّا نے مصر میں جب مسلم ممالک کے حافظ کرم علی (م 3 جنوری 1947ء) سربراہ حج کمیٹی مسلم لیگ صوبہ جات (یوپی) نے قاہرہ میں امام حسن البنّا سے ملاقات کرنے کے بعد قائداعظم کے نام ایک خط میں بتایا کہ مصر میں سب سے زیادہ مقبول اور طاقتور تنظیم اخوان المسلمون ہے جس کے سربراہ امام حسن البنّا ہیں۔ ان کے 50 ہزار رضاکار اور لاکھوں پیروکار ہیں۔ 28 مئی 1947ء کو امام حسن البنّا نے قائداعظم کے نام خط میں بتایا کہ ’’آپ کو یہ بتاتے ہوئے مجھے انتہائی مسرت ہورہی ہے کہ پوری وادی نیل کامل خلوص دل کے ساتھ آپ کے نظریات کے ساتھ تائید کرتی ہے اور کامل اعتماد رکھتی ہے کہ آپ کے زیرقیادت یہ جدوجہد ہندوستان میں آزادی کے لیے ضرور کامیاب ہوگی۔ آج کے بعد پوری روئے زمین پر کوئی ایسی طاقت نہیں جو اخوت اسلامی میں دراڑ ڈال سکے‘‘۔ ایک اور خط میں امام حسن البنّا نے 14اگست 1947ء کو گورنر جنرل قائداعظم محمدعلی جناح کے نام ٹیلی گرام میں قیام پاکستان کی خبرسن کرفرمایا: ’’آج کی اس تاریخی اور ازلی حقیقت کے حامل دن، جب دانش اور حکمت پر مبنی آپ کی قیادت میں پاکستان کی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ یہ مبارک باد وادی نیل کے سپوتوں اور بالخصوص لاکھوں اخوان المسلمون کے دلی جذبات کا حقیقی عکاس ہے‘‘۔ جب بھارت میں ہندو غنڈوں نے ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام، عورتوں کی بے حرمتی اور مہاجر قافلوں کی لوٹ مارشروع کی، تو امام حسن البنّا سے نہ رہا گیا اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو انہوں نے جذبہ اخوت اسلامی کا اظہار کرنے کے لیے گاندھی، نہرو، اور ماؤنٹ بیٹن کے نام مشترکہ ٹیلی گرام کے ذریعے اس ننگی غنڈہ گردی اور قتل عام پر شدید احتجاج کیا۔ اخوان المسلمون نے عالم عرب اور عالم اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی خون ریزی کو روکنے میں مسائل کا ذمے دار ٹھیرایا، یہ بھی کہا کہ لہو کی پکارکو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
(جاری ہے)