اسلام کو ’’بھارتیانے‘‘ کا ناپاک منصوبہ (حصہ اول)

662

ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر جناب سلیم منصور خالد نے بھارت کے مسلمانوں کو درپیش حالات کے بارے میں چند سوالات ارسال کیے ہیں جو درج ذیل ہیں:
’’بھارت میں مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے، راشٹریہ سیوک سنگھ، وشواہندو پریشد اور شیوسینا کے متعصب ہندوئوں نے مسلمانوں کو کہا ہے: ’’آپ ہندوستان میں پرامن طور پر رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تین شرطیں ہیں: (۱) دوسروں کو کافر نہیں کہیں گے، (۲) امت کے تصور کو ترک کرنا ہوگا، (۳) جہاد کو ترک کرنا ہوگا‘‘، ان سوالات کی بابت آپ کیا کہیں گے:
اُن کی خدمت میں یہ گزارشات پیش کی جارہی ہیں:
جیسا کہ آپ نے لکھا ہے: ’’ بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) ایک فسطائی (Fascist)، نسل پرست (Racist) اور ہندوئوں کی جنونی مذہبی انارکسٹ تنظیم ہے، Anarchist سے مراد وہ گروہ ہے جو کسی آئین وقانون کو نہیں مانتا، ان کا موٹو لاقانونیت، نِراج اور فساد ہوتا ہے، وشوا ہندو پریشد (VHP) اس کی ذیلی تنظیم ہے‘‘، نیز یہ کہ اُن کے فکری رہنما ’’شری رام مادھو‘‘ نے بھارتی مسلمانوں کو ہندوستان میں پرامن طور پر رہنے کے لیے تین شرائط پیش کی ہیں، ان شرائط کی روح یہ ہے: ’’مسلمان بھارت میں ہندوئوں کی طرح اسلام کو ایک پوجا پاٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کر کے رہیں‘‘، جنابِ افتخار گیلانی لکھتے ہیں: ’’بھارتی آرمی کے ایک حاضر سروس بریگیڈئر نے ایک تھنک ٹینک کے تحت منعقدہ سیمینار میں کہا: ’’مسلمان بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کرکے اس کا طواف کریں یا ہر سال سعودی عرب جانے کے بجائے اجمیر کی درگاہ میں جاکر اپنی عبادت کرلیں، کیونکہ مسلمانوں کا تصورِ اُمّت ہی مسئلہ کشمیر کی جڑ ہے‘‘۔ الغرض وہ مسلمانوں کو ہرجہت سے بھارتی سَماج کے رنگ میں رنگا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، اسے ہم اسلام کو بھارتیانے (Indianization of Islam) سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب مسلمان اپنے عقائد، تعلیمات، اخلاقی اقدار اور تہذیبی امتیازات کو ترک کرکے ہندو تہذیب کے رنگ میں رنگ جائیں، وہ اس پر بھی اکتفا نہیں کریں گے، آگے چل کر اُن کا مطالبہ ہوگا: ’’ہماری طرح ہی پوجا پاٹ کریں‘‘۔
اُن کے ایک جنونی نسل پرست فسطائی رہنما ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا، جو ایک وقت میں وشوا ہندو پریشد کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری رہے ہیں، سے جناب افتخار گیلانی نے کہا: ’’آپ تو کینسر اسپیشلسٹ ہیں، آپ کینسر کے مریض کے جسم کا آپریشن کر کے کینسر کے ٹیومر کو نکالتے ہیں، لیکن تضاد یہ ہے کہ آپ معاشرے میں کینسر پھیلارہے ہیں‘‘، اُن کا جواب تھا: ’’ہم مدرَسہ اور مارکس ازم کو بھارتی سَماج کے لیے کینسر ہی سمجھتے ہیں اور اسے سرجری کر کے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ ٹیومر کے معنی رَسَولی، گلٹی یا گانٹھ کے ہیں، یعنی بدن میں ایک خاص قسم کے نئے ٹشوز (بافتے) پیدا ہوتے ہیں، جو جمع ہوکر ایک رسولی یا گلٹی کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہ مرض رفتہ رفتہ پورے بدن میں سرایت کرتا ہے۔
ہندو یا ویدانتیوں کا ایک مطالبہ یہ ہے: ’’مسلمان اپنے علاوہ دوسروں کو کافر نہ کہیں‘‘، جبکہ اسلام کے نزدیک جو اسلامی عقائد واحکام اور فرائض ومحرمات کو تسلیم نہیں کرتا یا جس کے عقائد ضدِّ اسلام ہیں، اُن کا حامل کافر کہلاتا ہے، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جیسے ’’اگر ہندو اپنے آپ کو ہندو یاویدانتی کہلوائیں یا نصاریٰ اپنے آپ کو مسیحی کہلوائیں یا یہود اپنے آپ کو یہودی کہلوائیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘، معنوی اعتبار سے اس کا مآل (Consequence) یا نتیجہ ایک ہی ہے، لیکن کفر کو کفر ہی کہا جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک بھی دینِ اسلام، اسلامی اقدار وروایات اور اسلامی شعائر بھارتی مسلمانوں کو اُمّت سے جوڑتے ہیں، اس طرح بھارتی مسلمان ’’عالمی اخوتِ اسلامی‘‘ کے رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں، اگر مسلمانانِ عالَم اور مسلم حکومتیں باحمیت ہوں تو وہ بھارتی مسلمانوں کے لیے تقویت کا باعث بن سکتے ہیں، اُن کے نزدیک امت اور ملّت کا یہی تصور ہے، جسے وہ ختم کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے اِن شعائر کو مسلمان کی ظاہری پہچان قرار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے:
’’سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، (نماز میں) ہمارے قبلے کی جانب رُخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا، تو یہ وہ مُسلم ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کا ضمان (Gaurantee) یعنی تحفظ حاصل ہے، سو اللہ کے ضمان کو نہ توڑو‘‘، (بخاری) حدیث پاک سے مراد یہ ہے: اگر مندرجہ بالا ظاہری علامات کسی میں پائی جائیں تو جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو، اُسے مسلمان تصور کیا جائے گا، اسی تصور کو علامہ اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
مَنفَعت ایک ہے اس قوم کی، نُقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
حدیث پاک میں ہے:’’سیدنا نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی طرح پائو گے کہ جب اُس کا کوئی عُضو تکلیف میں ہوتا ہے تواس کے سبب سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے‘‘۔ (بخاری)
علامہ اقبال نے اسی حدیثِ پاک کو منظوم کیا ہے:
مبتلائے درد ہو کوئی عُضو، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی، ہوتی ہے آنکھ
ایک دلچسپ اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہندو فسطائی نسل پرست جنونی مفکرین نے مسلمانانِ ہند پر ہندوستان میں پرامن طور پر رہنے کے لیے جو تین شرائط عائد کی ہیں، وہ وہی ہیں جو پاکستان کے لبرل سیکولر عناصر یہاں کے مسلمانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی لبرل عناصر بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان امت اور ملّت کے تصور سے نکل آئیں، اسلامی ریاست کی بات کرنا چھوڑ دیں اور ’’قومی ریاست‘‘ کی بات کریں، کیونکہ جب ہم اس تصور کو اپنائیں گے تو بھارتی مسلمانوں، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں، فلسطین کے مسلمانوں اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں پر جو بھی گزرے، اس سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہوگا، اسرائیل کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا۔ ہمارے لبرل یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دین سے انحراف یعنی ارتداد، مذہبی مسلّمات ومقدّسات کی اہانت، الغرض کسی بات پر کسی کو مواخذہ کرنے کا کوئی حق نہیں، ہر ایک اسلام کی اپنی تعبیر کرسکتا ہے، اپنے نظریات میں آزاد ہے، کسی عالم یا مفتی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی پر کفر کے فتوے لگائیں۔ یہ مادر پدر آزادی، بے راہ روی اور دین اور اہلِ دین سے بیزاری نہیں تو اور کیا ہے، نیز وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جہاد کی بات نہ کی جائے، کیونکہ اس سے عالَمِ کفر ناراض ہوتا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ’’یوگیا آدتیہ ناتھ‘‘ نے بھی کہا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں، سکھوں، جَین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں‘‘۔ جبکہ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ صرف اور صرف دینِ اسلام کو حق سمجھے اور اس کے مقابل ادیان کو باطل سمجھے، دستیاب حالات میں دین کے غلبے کی ہر ممکن کوشش کرے، البتہ اسلام دین اور ہر معاملے میں جبر واِکراہ اور دہشت وفساد کی اجازت نہیں دیتا، مگر دعوت وتبلیغ کے ذریعے دینِ اسلام کو پھیلانا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کردے، خواہ مشرک اسے ناپسند کریں، (التوبہ: 33، الصف: 9)‘‘، ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کردے اور اللہ کی گواہی اس پر کافی ہے (کہ یہ ہوکر رہے گا)‘‘۔ (الفتح: 28)
اسی طرح کفر کو کفر کہنا پڑے گا، قرآنِ کریم اور اسوۂ رسولؐ اس پر ناطِق وشاہد ہیں، حق وباطل میں تمیز کرنا اور حق کو باطل سے ممتاز کرنا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے، نیز باطل سے مفاہمت نہیں ہوسکتی، قرآنِ کریم کی ’’سورۃ الکافرون‘‘ اور دیگر متعدّدآیات اس پر ناطِق وشاہد ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اسلام نے بیانِ حق کے بارے میں مُداہَنت کی اجازت تو نہیں دی، لیکن غیرمسلموں سے مُدارات ہوسکتی ہے اور قرآن نے اس کی اجازت دی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اُن لوگوں کے ساتھ نیک برتائو کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے نہ دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تمہیں صرف اُن لوگوں کے ساتھ دوستی سے منع فرماتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے نکالنے میں (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی ہے اور جو ایسے لوگوں سے دوستی کریں گے، تووہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ (الممتحنہ: 8-9)
سورۃ التوبہ: 24 اور سورۃ المجادلہ: 22 میں قرآنِ کریم نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ایمان، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّمؐ سے عداوت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، نیز اسلام نے مومن کو کائنات کی اُن تمام چیزوں سے اپنی حد کے اندر رہتے ہوئے محبت کرنے یا وابستگی رکھنے کی اجازت دی ہے، جن سے لگائو انسان کا فطری تقاضا ہے۔ لیکن اگر ان تمام چیزوں کی محبت یکجا ہوکر بھی اللہ تعالیٰ، اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد کے مقابل آجائیں تو ایمان تب سلامت رہے گا جب صرف اللہ تعالیٰ، اُس کے رسولِ مکرمؐ اور اس کی راہ میں جہاد کو محبوب ترین مانا جائے۔