یہ وہ عمران خان نہیں

843

عمران خان کا بیانیہ ہے کہ ہم آپ کے غلام نہیں کہ آپ کی ہر بات مانیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے واضح طور پر امریکا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہم ان کے غلام نہیں مگر جو لوگ عمران خان کی کیمسٹری سے واقف ہیں ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یہ دھمکی انہیں دی ہے جو انہیں اقتدار میں لائے تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر انہیں ایوان اقتدار سے نکالا گیا تو پہلے سے زیادہ خطر ناک ہو جائیں گے گویا موصوف نے یہ تسلیم کر لیا کہ وہ پاکستان کے لیے خطرناک شخص ہیں اگر عمران خان کے لفظوں پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ عمران خان نے اپنے سرپرستوں کے احترام کا دامن نہیں چھوڑا، اظہار نفرت کرنے والا کبھی آپ کا لفظ استعمال نہیں کرتا آپ کا لفظ محترم لوگوں کے لیے مستعمل ہے ہم جوں جوں عمران خان کے جملے پر غور کرتے گئے ان کا کردار واضح ہوتا گیا۔ سیتا نامی خاتون سے عمران خان کے تعلقات تھے جس کے نتیجے میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ٹیریان رکھا گیا مگر عمران خان نے ٹیریان کو اپنی بیٹی ماننے سے انکار کر دیا اس معاملے کی تحقیق کی گئی تو ٹیریان عمران خان کی بیٹی ثابت ہوئی لیکن عمران خان نے اس تحقیقی رپوٹ کو بھی مسترد کر دیا کچھ عرصے کے بعد سیتا کا انتقال ہو گیا ٹیریان لاوارث ہوگئی مگر عمران خان کے خون نے جوش نہ مارا تب جمائما نے ماں ہونے کا ثبوت دیا اس نے ٹیریان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو صادق و امین کیوں اور کیسے قرار دے دیا عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو امین اور صادق قرار دیا تو موصوف نے جھوٹ کو اپنا حق سمجھ لیا ہر معاملے میں جھوٹ بولنا ان کا وتیرا بن گیا اس پس منظر میں یہ سوچنا غلط نہ ہو گا کہ اگر جمائما کے ساتھ تعلقات برقرار رہتے تو وہ قابل فخر خاتون اول اور قابل تحسین خاتون ثابت ہوتیں قاسم خان اور سلمان خان بھی وطن عزیز کے لیے قابل تحسین شہری ثابت ہوتے عمران خان کے موجودہ کردار کے پیش نظر جمائما یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ وہ جس عمران خان سے واقف ہیں وہ یہ عمران نہیں کوئی اور ہی ہے جمائما کی خواہش تھی کہ وہ قاسم خان کو سیاست میں لائیں گی اور سلمان خان بزنس مین بنیں مگر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا اور ان کے دونوں بیٹے تجارت کو فوقیت دیں گے کیونکہ عمران خان نے ان پر سیاست کا دروازہ بند کر دیا ہے اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دروازہ عمران خان کے لیے سیاسی دروازہ ہو گا مگر اس سے کیا فرق پڑے گا عمران خان کے دل کے آنگن میں کوئی در سیاست موجود ہی نہیں اسے قوم کی بدنصیبی کہا جائے یا عمران خان کی خوش نصیبی کہ انہیں وزارت عظمیٰ سونپ دی گئی۔
کبھی کبھی چودھری فواد بھی بڑی دانش مندانہ بات کہ گزرتے ہیں ان کا یہ کہنا وطن عزیز کی تاریخ کی ایک ایسی سچائی ہے جسے تکذیب کی سولی پر نہیں لٹکایا جا سکتا، کہتے ہیں پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ اس پر تجرباتی حکمران مسلط کیے گئے جنہوں نے ملک و قوم کا ستیا ناس کر دیا۔ پاکستان کا قیام اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کیا گیا تھا مگر یہاں پر طرز حکمرانی کے تجربات کیے گئے کبھی جمہوریت کبھی مارشل لا کبھی سول مارشل لا اور کبھی آمریت عمران خان بھی ایک تجرباتی حکمران تھے کیونکہ اقتدار کی تکون مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے باری باری کے کھیل اوب چکے تھے انہیں ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو نیک نام اور دیانت دار ہو خداجانے ہیت مقتدرہ کی لغت میں دیانت داری اور نیک نامی کی کیا تعریف ہے ورنہ عام معنی میں خان صاحب کسی بھی طرح دیانت دار دکھائی نہیں دیتے، جھوٹ اور دیانت داری کبھی یکجا نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں پائے جانے والے تضادات دریا کے کناروں کی طرح ہوتے ہیں اور دریا کے کنارے متوازی ہونے کے باوجود کبھی نہیں ملتے عمران خان کی خود سری اور انا پرستی سے سبھی واقف تھے پرویز مشرف عمران خان سے بہت متاثر تھے موصوف خان صاحب کی خواہش پر وزارت عظمیٰ دینے پر آمادہ تھے مشیروں نے مشورہ دیا کہ خان صاحب کی آرمی افسران سے ملاقات کرائی جائے تاکہ ان کی رائے بھی معلوم ہو سکے کہا جاتا ہے مشرف نے انہیں آرمی افسران سے ملاقات کا موقع فراہم کیا، فوجی قیادت نے صدر مشرف کو بتایا کہ پرندہ پرواز کے قابل نہیں۔ یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ فوجی قیادت عمران خان کو پرواز کے قابل نہیں سمجھتی تھی پھر وزیر اعظم کیسے اور کیوں نامزد ہوئے انہیں قوم کا ہیرو بنانے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے گئے کہ بیلنا ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا عمران خان کو قوم و ملک پر مسلط کرنے میں فوجی قیادت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا سوال یہ بھی ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں کوئی بھی ایسا نہیں جس پر بھروسا کیا جا سکتا سوال یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کو آزمانے والے اسلام پسندوں کو کیوں نہیں آزماتے انہیں کیوں بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے اصولی طور پر تو اسلام پسندوں ہی کو پاکستان پہ حکمرانی کا حق ہے اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ تھا آخر وہ کون سی مجبوری ہے جو شریعت کو آزمانے میں مانع ہے سوال یہ بھی ہے ہیت مقتدرہ اس مجبوری کے سامنے سرنگوں کیوں ہے۔