سچ یہ ہے! (حصہ اوّل)

786

عربی کا مقولہ ہے: ’’سچ کڑوا ہوتا ہے، اگرچہ یہی گوہرِ نایاب ہوتا ہے‘‘، مرزا اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر ہمارے حسبِ حال ہے، باقی سب کہانیاں ہیں، فسانے ہیں، بس سچ یہی ہے:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں!
رنگ لاوے گی، ہماری فاقہ مستی ایک دن
الغرض ہم عالمی ساہوکاروں کے آستانوں پہ جبیں سائی کرتے رہے، سودی قرضوں پر گزران ہوتا رہا، عشرتیں بھی کیں، لیکن فرد ہو یا قومیں اور ملّتیں، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ایک دن یہی انجام نوشتۂ دیوار بن کر سامنے آتا ہے، سو اَب آچکا اور اب ہماری فاقہ مستی رنگ لارہی ہے، بلکہ رنگ کچھ چوکھا ہی آگیا ہے۔ باری باری مسندِ اقتدار پر فائز ہونے والے ہمارے حکمران ذمے داری قبول کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں، حالانکہ سچ یہ ہے کہ سب ہی اس کے ذمے دار ہیں، کسی کا حصہ کم ہے، کسی کا زیادہ، کسی کے دور میں ان قرضوں کا کچھ حصہ صنعتی منصوبوں اور ذرائع مواصلات پر لگا اور کسی کے دور میں زمین پر اس کا کوئی نشان ہی نظر نہ آیا حتیٰ کہ مسٹرکلین خان صاحب کا حصہ اس میں تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے، سو یہ ذمے داری سب کو مشترکہ طور پر قبول کرنی ہوگی اور اس سے نَجات کے لیے کوئی طویل المدت منصوبہ بنانا ہوگا، کیونکہ اس مسئلے کا قلیل المدت کوئی حل نہیں ہے۔
ہم ’’پاکستان کا اصل مسئلہ‘‘ کے عنوان سے 21مئی 2022 کو اس پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں، یہ نہ کوئی پیچیدہ مسئلہ ہے، نہ فلسفیانہ موشگافیوں سے اس سے گریز کیا جاسکتا ہے، یہ دو اور دو چار کا مسئلہ ہے، جب کوئی فرد یا قوم گلے گلے تک قرض میں پھنس جائے، تو مزید قرض کے سوا چارہ نہیں رہتا، قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ذرا اُس دن کو یاد کرو! جب ہم جہنم سے پوچھیں گے: کیا تو بھرگئی ہے اور وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے، (ق: 30)‘‘، سو اب ہم قومی اعتبار سے قرضوں کے حوالے سے قرآنِ کریم کے کلماتِ مبارکہ کے مطابق ’’ھَلْ مِنْ مَّزِیْد‘‘ کے مرحلے میں ہیں، اس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف پر یکساں ذمے داری عائد ہوتی ہے، ’’لیلائے اقتدار‘‘ کے سب دیوانے ہیں، لیکن جو بھی اس سِنگھاسَن پر آکر بیٹھے گا، اُسے ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا ہوگا، ہر قاری کے ذہن میں لازماً یہ سوال پیدا ہوگا: ’’جب حالات اتنے کٹھن ہیں، تو حصول ِ اقتدار کی اتنی تڑپ کیوں‘‘، تو اس سوال کا جواب یہ ہے: ’’اقتدار واختیار کا نشہ شاید سب نشوں سے فزوں تر ہے اور اگر اس میں آتشِ انتقام بھی شامل ہوجائے، تو پھر یہ نشہ دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتا ہے، جیساکہ ہمارے ہاں نظر آرہا ہے‘‘۔
حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ہمارے 2022-23 کے قومی میزانیے میں آمدنی کا ممکنہ تخمینہ تقریباً سات ہزار ارب روپے اور اخراجات کا ممکنہ تخمینہ تقریباً بارہ ہزار ارب سے زائد بتایا گیا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے: ’’پانچ ہزار ارب کا جو فرق ہے، وہ کہاں سے آئے گا‘‘، سو وہی قرضوں کا جال ہے جو پھیلتا چلا جائے گا اور اگر یہی روش جاری رہی تو نادہندہ قرار دیا جانا کچھ عرصے کے لیے مؤخَّرتو ہوسکتا ہے، لیکن ہمیشہ کے لیے بظاہر ممکن نظر نہیں آتا، اس کا ایک ہی حل ہے: ’’اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا، یعنی اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے جینے کا سلیقہ سیکھنا‘‘، اس کے سوا اس کا اور کوئی حل نہیں ہے، باقی سب خوش فہمیاں ہیں، خود فریبیاں اور طفل تسلیاں ہیں، حتیٰ کہ ہمارے 2022-23 کے مجوّزہ بجٹ میں ممکنہ اخراجات کا سب سے بڑا کھاتہ (Head of Account) قرضوں کی ادائیگی کا ہے جو تقریباً چار ہزار ارب روپے ہے۔ لیکن اس کے لیے قوم اور نظامِ حکومت میں شامل یعنی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف اور تمام سیاسی رہنمائوں کو اپنے آپ کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا، قوم کی ذہن سازی کرنی ہوگی، قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا، ایک دوسرے پر التزام تراشی کے بجائے مجموعی طور پر ذمے داری قبول کرنی ہوگی اور یہی چیز ہمارے ہاں مفقود ہے، آنکھیں کھولنے والے حقائق یہ ہیں:
ہمارے بیرونی زرِ مبادلہ کا محفوظ ذخیرہ دس ارب ڈالر سے کم ہیں، جبکہ بھارت کے بیرونی زرِ مبادلہ کامحفوظ ذخیرہ چھے سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے، ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل بھارت کے چیف جسٹس کا مشاہرہ ہمارے آج کے کرنسی ریٹ کے مطابق تقریباً ساڑھے سات لاکھ روپے ہے اور بائیس کروڑ آبادی پر مشتمل پاکستان کے عالی مرتبت عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کا مشاہرہ ومراعات تقریباً اس کا ڈبل ہے، بلکہ ہمارے عالی مرتبت جج صاحبان کی پنشن بھی شاید بھارت کے چیف جسٹس کے مشاہرے سے زیادہ ہے، یہی صورت ِ حال دوسرے با اختیار اداروں اور مراعات یافتہ طبقات کی ہے، حال ہی میں پی ٹی آئی کے ایک ارب پتی سردار تنویر الیاس آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بنے، اُن کی کابینہ نے سب سے پہلے صدر، وزیر اعظم، وزراء اور ارکانِ اسمبلی کے مشاہروں کو دوگنا یا اُس سے بھی زیادہ کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ آزاد کشمیر کے بجٹ کا سارا انحصار پاکستان سے ملنے والی امداد پر ہے۔ جب تک اہلِ اقتدار واختیار حقیقی تبدیلی کے لیے عملی مثالیں قائم نہیں کریں گے، تو غریب عوام سے قربانی کی توقع رکھنا فضول ہے، وہ تو بے اختیار ہیں اور بھگت رہے ہیں، حال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے پہلے وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں اور گاڑیاں بیچنے کا ڈراما کیا اور پھر گھر سے وزیر اعظم ہائوس تک آمد ورفت کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے، جبکہ وہ اپنے آپ کو سب سے پاکباز، محبِّ وطن اور دیانت دار سمجھتے ہیں، سب کا حال یہی ہے۔
حقیقی مجبوری کے تحت اگرچہ بعض صورتوں میں قرض ناگزیر ہوجاتا ہے اور شریعت میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے، اسی لیے قرضِ حسن کے فضائل بھی بیان کیے گئے ہیں، رسول اللہؐ نے بھی ضرورت کے تحت قرض لیا ہے، قرض کے احکام بھی شریعت میں وارد ہیں، لیکن رسول اللہؐ نے قرض کو عذاب سے بھی تعبیر فرمایا ہے، احادیث مبارکہ میں ہے:
’’نبیؐ یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں فکرِ (پریشاں)، غم، عَجز، سستی، بزدلی، بخل، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، (بخاری)‘‘، ’’رسول اللہؐ ایک دن مسجد میں داخل ہوئے تو ابواُمامہ انصاری کو وہاں دیکھ کر فرمایا: ابواُمامہ! (اس وقت یہاں آمد کا) سبب کیا ہے، کیونکہ یہ نماز کا وقت تو ہے نہیں اور تم مسجد میں بیٹھے ہو، انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہجومِ افکار اور قرضوں نے مجھے گھیر رکھا ہے، آپؐ نے فرمایا: میں تمہیں ایسے دعائیہ کلمات نہ بتائوں کہ (ان کی برکت سے) اللہ تمہیں ان غموں سے نجات دیدے، انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ضرور بتائیے! آپؐ نے انھیں صبح وشام پڑھنے کے لیے جو دعائیہ کلمات تعلیم فرمائے، ان میں یہ بھی تھے: ’’اے اللہ! میں قرض کے غلبے اور لوگوں کے تسلّط سے تیری پناہ چاہتا ہوں، ابواُمامہ بیان کرتے ہیں: میں نے یہ دعاپڑھنی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے غموں کو بھی دور فرمادیا اور میرے قرض کی ادائیگی بھی مقدر فرمادی، (ابودائود)‘‘، ’’آپؐ نے فرمایا: میں کفر اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، ایک شخص نے عرض کی: (یارسول اللہ!) آپ نے قرض کوکفر کے برابر ٹھیرایا، تو آپؐ نے فرمایا: ہاں، (نسائی)‘‘، ’’ سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں: ایک مُکاتَب غلام اُن کے پاس آیا اور عرض کی: میں بدلِ کتابت (یعنی آزادی کا مالی بدل) ادا کرنے سے عاجز ہوں، سو میری مدد فرمائیے!، سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہٗ نے فرمایا: میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھائوں جو مجھے رسول اللہؐ نے سکھائے تھے، (آپؐ نے فرمایا تھا:) علی! اگر تم پر ’’جبلِ صِیر‘‘ (پہاڑ کا نام) کے برابر بھی قرض ہوگا، اللہ تعالیٰ اُس کی ادائیگی کی تدبیر مقدر فرمادے گا، آپؐ نے فرمایا: یہ دعا پڑھو: اے اللہ! تو مجھے حلال رزق اتنا عطا فرما جو مجھے حرام سے بے نیاز کردے اور مجھے اپنے فضل سے اتنا نواز دے کہ تیرے (کرم کے) سوا کسی اور کی (طرف التفات کی) حاجت ہی نہ رہے، (سنن ترمذی)‘‘۔ جب غلامی کا رواج تھا، تو بعض اوقات مالک غلام سے کہتا: ’’اتنی رقم ادا کردو، میں تمہیں آزاد کردوں گا، پھر مالک اس کو محنت مشقت کر کے کمائی کرنے کے لیے عارضی آزادی دے دیتا تھا اور جب وہ مطلوبہ رقم کماکر مالک کو دے دیتا تو پھر وہ مکمل طور پر آزاد ہوجاتا‘‘۔
ہمارے لبرل حضرات اس طرح کی آیات واحادیث، جو بشارات پر مبنی ہوتی ہیں اور غمزدہ دلوں کے لیے سہارا بنتی ہیں، کا مذاق اڑاتے ہیں، کیونکہ وہ عالَمِ اسباب ہی کو مؤثر بالذات مانتے ہیں اور ذاتِ مُسَبِّبُ الاسباب کی قدرت کا انکار کرتے ہیں، جبکہ مومن کا شِعار اس سے مختلف ہوتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے! اگر ہماری قوم دل وجان سے اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے، تو کیا ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ساحلوں کے قریب زیرِ زمین یا ہماری سرزمین میں بے حساب معدنیات نکل آئیں اور ہم خود کفیل ہوجائیں، جیساکہ عالَمِ عرب اللہ تعالیٰ کے ان قدرتی خزانوں سے فیضیاب ہورہا ہے، انسانی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی، آخر لوگوں نے معاذ اللہ! باطل ’’زمینی خدائوں ‘‘کی بندگی کرکے بھی دیکھ لیا ہے، کیا ملا اور آج ہم کس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔
، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ( اللہ سے) ڈرتے رہتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے، مگر انھوں نے (رسولوں کو) جھٹلایا تو ہم نے اُن کے کرتوں کے سبب اُن کو اپنی گرفت میں لے لیا، (الاعراف: 96)‘‘، ’’بھلا وہ کون ہے جو (عاجزی کے عالَم میں) مُضطَر (اور پریشاں حال شخص) کی دعائوں کو قبول فرماتا ہے اور اس سے تکلیف کو دور فرمادیتا ہے، (النمل: 62)‘‘۔ (جاری ہے)