گستاخوں و شاتمین کے خلاف ٹھوس اقدامات کی ضرورت

553

اسلام ایک انقلابی فکر رکھنے والا دین ہے۔ اس کے نظریاتی، فکری و ثقافتی اثرات تیزی سے پوری دنیا خصوصاً مغربی دنیا میں پھیل رہے ہیں، تبلیغ دین کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے جس کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے باطل قوتیں روز اول سے سرگرم عمل ہیں، یہ قوتیں اسلام کے پھیلائو و فکر کی روشنی کو تو روکنے میں ناکام رہی ہیں لیکن اسلام و پیغمبر اسلام کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کا محاذ کھول دیا گیا جس کے تحت اسلام اور پیغمبر اسلام و محسن انسانیت محمدؐ کی سیرت و کردار کو داغدار کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی اور مغربی و یورپی مستشرقین لٹریچر کی سطح پر یہ کام ایک عرصے سے کررہے ہیں اور ایسا لٹریچر پھیلارہے ہیں جس میں پیغمبرؐ اسلام و دیگر مقدس ہستیوں کے کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان مستشرقین کے طریقہ واردات پر تبصرہ کرتے ہوئے برصغیر کے نامور اسلامی اسکالر مولانا ابوالحسن علی ندوی کہتے ہیں کہ ’’یہ لوگ خوردبین سے دیکھتے ہیں اور دوسروں کو دور بین سے دکھاتے ہیں‘‘ مطلب یہ کہ ان کا مطمح نظر اسلام اور پیغمبرؐ اسلام میں صرف چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اٹھاتے اور دوسروں کو یہ چیزیں بہت بڑی اور اہم بنا کر دکھاتے ہیں۔ اس قسم کے لٹریچر کے ساتھ ہی اسلام سے بغض رکھنے والے بھی آئے دن اسلام، پیغمبرؐ اسلام اور ان سے تعلق کے حوالے سے مقدس ہستیوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں اور ان کی نجی زندگی کو بھی اپنے خبث باطن کا نشانہ بناتے ہوئے گستاخانہ پروپیگنڈے کی جسارت کرتے ہیں۔ ایسی جسارت حالیہ دنوں میں بھارت میں کی گئی ہے اور وہاں کی حکمران جماعت بی جے پی کی ترجمان خاتون نے ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام اور زوجہ مطہرہ کے بارے میں گستاخانہ کلمات کا اظہار کیا ہے اور آپؐ اور آپ کی زوجہ محترمہ کے کردار کی پاکیزگی کو نشانہ بنایا جس کی پوری مسلم دنیا میں بھرپور مذمت و غم و غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب، عرب امارات، یمن، قطر، عمان و دیگر عرب ریاستوں میں خاتون کے گستاخانہ کلمات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ترکی، پاکستان، ایران، افغانستان میں بھی اظہار مذمت کیا جارہا ہے اور جلسے جلوس کے ذریعے سیاسی و مذہبی جماعتیں و عوام اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے خاتم النبیین کے حوالے سے جو جذبات ہیں وہ اپنی جان بھی رسولؐ آخرالزماں پر قربان کردینے کو سعادت سمجھتا ہے اور عشق رسول اس کے ایمان کا حصہ ہے۔ عرب دنیا میں اس واقعے پر بطور احتجاج سخت اقدامات کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور وہاں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی کامیاب تحریک چل رہی ہے۔ جب کہ پاکستانی حکومت نے بھی سفارتی سطح پر سخت احتجاج کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک عرصے سے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو بھی نشانہ بنارہا ہے وہاں ہندو انتہا پسند تنظیمیں اذان، نماز و مساجد کی بے حرمتی کے واقعات میں ملوث ہیں، جب کہ کشمیر میں روز بروز مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ ان حالات میں اقوام متحدہ و انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت کے خلاف نوٹس لینا چاہیے اور حالیہ گستاخی کے واقعے پر او آئی سی تنظیم میں شامل مسلم ممالک کو بھی حرکت میں آنا چاہیے اور بھارت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس حرکت پر مسلمانوں سے معافی مانگے اور مذکورہ خاتون کے خلاف سخت اقدامات کرے اور انتہا پسند تنظیم پر پابندی عائد کرے۔ حالاں کہ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت نے تاحال گستاخانہ کلمات ادا کرنے والی اس خاتون ترجمان کے خلاف کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ہے۔ جب کہ اس دلخراش واقعے پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر بھارتی پولیس نے شدید تشدد و گرفتاریاں کی ہیں اور مذکورہ خاتون تاحال گرفتار نہیں کی گئی۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ اور اس سے منسلک ذیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ احترام مذاہب کے حوالے سے عالمی سطح پر تمام ممالک و اپنے نمائندہ ممالک میں ایسے بین الاقوامی ضابطے و قوانین وضع کرائے جن میں مذہب و مذہب کی مقدس ہستیوں کے خلاف منفی ہرزہ سرائی و گستاخانہ ریمارکس دینے کو جرم قرار دیا جائے اور ہر ملک پابند ہو کہ وہ احترام مذاہب کے قانون پر عمل درآمد کراتے ہوئے ایسے شرمناک کردار رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ایسا قانون عالمی سطح پر اظہار ضمیر و عقیدہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اظہار عقیدہ کو تحفظ فراہم کرے گا۔ اسلام بھی ضمیر کی آزادی و عقیدہ کی آزادی کی اجازت دیتا ہے اور حرمت فکر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس فکر سے حق و سچائی کا راستہ کھلتا ہے اور باہمی رواداری کو فروغ ملتا ہے۔ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرے لیکن یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ مذہب اور مذہبی مقدس شخصیات کی نجی زندگی کے کردار کو نشانہ بنا کر نفرت و باہمی رواداری کو نقصان پہنچائے۔ ذات پر حملہ، تحقیر و گستاخانہ کلمات کی ادائیگی ہرگز آزادی اظہار نہیں ہوسکتی، ایسے واقعات کو روکنا ہر صاحب ضمیر اور انسانی حقوق رکھنے والے تمام ممالک کی حکومتوں کا اخلاقی فرض ہے۔