مشکل فیصلے گردان نہیں عملی اقدام

604

پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد غریب عوام کو دی گئی 28 ارب روپے کی رعایت کو حکومت کا ایک احسن قدم کہا جا سکتا ہے تاہم اس کا فائدہ صرف ان کو پہنچ رہا ہے جو پہلے ہی کسی نہ کسی حکومتی ریلیف پیکیج سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں اور اس طرح کے ہر ریلیف پیکیج کی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں اس بار بھی اس کام کے لیے وہی پرانا ذریعہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام استعمال کیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پٹرول کی مد میں جن افراد کو رعایت دی جا رہی ہے ان میں 60 فی صد سے زائد وہ لوگ ہیں جن کے پاس پٹرول سے چلنے والی کوئی سواری نہیں ہے جو زیادہ تر گائوں دیہاتوں میں رہائش پزیر ہیں مہینوں وہ اور ان کا خاندان سفر کے کسی مرحلے سے نہیں گزرتا۔ دوسری بات یہ کہ ان کو بہر صورت بے نظیر انکم سپورٹ اور کبھی صحت کارڈ اور کبھی دیگر کارڈ کے تحت ریلیف کی مختلف صورتیں موجود ہیں، ان کے اخراجات بے حد کم اور قابل گزارہ ہیں، انہیں ان مختلف نوعیت کے پروگراموں کے علاوہ بھی اگر وہ ہاری اور کسان ہیں تو کبھی کھاد کی مد میں، کبھی بیجوں کی مد میں اورکبھی ہنگامی صورتحال کے نتیجے میں بھی ریلیف پیکیجز ہر حکومت دیتی رہتی ہے۔ تیسری اہم بات یہ کہ کسی محنت کے بغیر ان میں سے بیش تر افراد کو گھر بیٹھے وہ کچھ مل رہا ہے جس کے وہ مستحق نہیں اور جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ محنت کے قابل بھی نہیں رہے ان میں سے بیش تر افراد وہ ہیں جن کے گھروں میں سے کوئی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کی پنشن بھی وصول کر رہا ہے۔
مذکورہ بالا تجزیہ جس سے ممکن ہے اختلاف کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ گائوں دیہاتوں میں بسنے والے غریب عوام سے زیادہ ریلیف کے مستحق ہر شہر اور اس کے نواح میں بسنے والے وہ افراد ہیں جن کا تعلق اب اپنے آبائی گائوں دیہاتوں سے ختم ہو چکا ہے، وہ شہر میں رہنے کی اذیت جھیلتے ہیں ایک یا دو کمرے کے مکانات میں بڑی فیملی کے ساتھ رہائش رکھتے ہیں جن میں ان کے اپنے بچوں کے علاوہ بوڑھے والدین بھی رہتے ہیں۔ بجلی، گیس کا بل ہر ماہ انہیں بھرنا پڑتا ہے کھانے پکانے کے لیے مہنگے گیس سلنڈر استعمال کرتے ہیں علاج معالجے کی کوئی صورت موجود نہیں الغرض جنہیں نمک اور پانی بھی خریدنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے ریلیف پیکیج میں انہیں نہ تو شامل کرتی ہے اور نہ ہی ان کے لیے سوچتی ہے بجٹ میں جب کبھی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کا ذکر ہوتا ہے تو بھی صرف ان سرکاری ملازمین کے لیے جو ملکی آبادی کا 20 فی صد بھی نہیں اور جنہیں ملازمت پر رہتے ہوئے بے شمار نذرانے اور شکرانے وصول کرنے کی پوری آزادی اور سہولت مہیا رہتی ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت 273 کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جن کی خودداری دیکھ کر ناواقف لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ خوشحال ہیں وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ اتنی لمبی موشگافی کے بعد میرا کہنا یہ ہے کہ ملک میں موجود دو کلاس یعنی اپر کلاس اور لوئر کلاس دونوں کا گزارہ ہر طرح کی مہنگائی میں اس لیے ممکن رہتا ہے کہ اپر کلاس اپنی امدن جائز اور ناجائز کی پروا کیے بغیر حاصل کرتا ہے جبکہ لوئر کلاس کو مذکورہ تمام پیکیجز کی سہولت اور مخیّر حضرات کا تعاون بھی حاصل رہتا ہے جبکہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو یہ سہولت میسر نہیں اور دراصل وہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے۔
ہر حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی ریلیف کے سب سے پہلے مستحق دہاڑی دار مزدور اور نجی ملازمت میں آٹھ کے بجائے دس تا بارہ گھنٹے بغیر کسی اضافی اُجرت کام کرنے والے لوگ ہیں جن میں غریب اور بیوہ خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی رہائش کراچی کے نواحی علاقوں اورنگی، سرجانی، لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی اور لاہور میں گرین ٹاون، اولڈ ایریا، بتی چوک کا اطراف، باگڑیا اور شاہدرہ جیسے علاقے ہیں جن میں ہر گھر میں روزگار پر آنے جانے کا واحد ذریعہ موٹر سائیکل اور رکشہ کی سواری ہے انتہائی ایمرجنسی میں بھی جو ایمبولنس کے بجائے چنگ چی رکشہ کا استعمال کرتے ہیں اور جن کے گھروں میں آج بھی اسپتال کے بجائے گھروں میں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے جس کے باعث ان گھروں میں مختلف النوع بیماریاں ان نو مولودوں کا مقدر بن جاتی ہیں اور کچھ اپاہج پیدا ہوتے ہیں جنہیں بعد میں ہم ہمدردی کی زبان میں خصوصی بچے کہہ کر اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔
ٹارگیٹڈ سبسڈی یہ نہیں جو موجودہ حکومت نے دی یا پچھلی حکومتیں دیتی رہی ہیں پٹرول کی مد میں ٹارگیٹڈ سبسڈی کے مستحق وہ تمام موٹر سائکل سوار اور چنگ چی رکشہ استعمال کرنے والے لوگ یاپھر 800 سی سی تک کی کار استعمال کرنے والے ہونے چاہیے تھے نا کہ وہ لوگ جو ایسی کوئی سواری نہیں رکھتے جن میں پٹرول استعمال ہوتا ہو۔ طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر شہری کے شناختی کارڈ جن کے اپنے نام پر گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں کو پٹرول کارڈ کا درجہ دیکر موٹر سائیکل سواروں کے لیے پورے ماہ میں پچاس لیٹر 800 سی سی تک کی کار والوں کے لیے 100 لیٹر جبکہ رکشہ والوں کے لیے 150 لیٹر مقرر کر دیا جاتا اس شرط پر کہ وہ زاید کرایہ وصول نہیں کریں گے اس اقدام سے بہت ساری وہ موٹر سائیکل اور گاڑیاں جو ابھی تک اپنے مالکان کے نام پر رجسٹرڈ نہیں ہیں رجسٹر ہو کر وہیکل ٹیکس کے دائرے میں آجائیں گی اور حکومت کی آمدنی کا ذریعہ بھی بنیں گی سوزوکی پک اپ اور دیگر باربرداری والی گاڑیوں کو اس پروگرام میں اس لیے شامل نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنا حق پورا وصول کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں
کرتے نیز ان کا روز مرہ کے مسافروں سے واسطہ بھی نہیں پڑتا کہ تکرار کی نوبت آئے اور قومی شناختی کارڈ ہی کو ہر شہری کے راشن کارڈ کا درجہ دے دیا جائے جو مستقبل قریب میں انتہائی سخت حالات میں آٹا، چاول، دال، گھی، چینی اور تیل کی راشن بندی کے لیے ایک ضروری اور لازمی امر ہوگا ظاہر ہے اس کام کے لیے ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نادرا کی مدد درکار ہوگی نادرا کے پاس تمام ڈیٹا موجود ہیے بس انہیں مربوط کرنے کی ضرورت ہے انکم ٹیکس کے دفاتر میں کم امدن و اخراجات والے یعنی کم تنخواہ والوں کے گوشواروں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جو ہر طرح کے متوقع بحرانوں میں حکومت وقت کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوگا۔
آخری بات یہ کہ مشکل فیصلے جب کرنے ہی ہیں تو پھر اپنی آنکھوں پر عدالتوں کے باہر لگے مجسموں کی آنکھوں پر بندھی کالی پٹی کا سہارا لینا ہوگا تاکہ غریب کی محبت اور امیر کا احترام ملحوظ خاطر نہ رہنے پائے اور آپ کا ہر مشکل فیصلہ ملک اور قوم کی راحت کا باعث بن جائے۔ ایک رائے یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ کیوں نہ ان 28 ارب کے ریلیف پیکیج کو ہم بند کارخانوں کو قابل استعمال بنانے اور نئی چھوٹی صنعتوں کے قیام پر خرچ کرتے جس سے لاکھوں بے روزگاروں کا روزگار بحال اور نئی ملازمتوں کی راہیں کھلتیں اور غرباء کی ایک بڑی تعداد فقر سے نکل کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کا ذریعہ بنتی مفلسی ختم کرنے کا یہ علاج نہیں کے ہر مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ دے کر انہیں ہمیشہ مانگے پر مائل رکھا جائے بلکہ ان کی عزت یہ ہے کہ انہیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے انہیں روزگار فراہم کیا جائے اور اس کے بعد بھی کچھ لوگ اپنی اس عادت کو ترک نہ کریں تو شہر میں لگے تمام دسترخوان جو اہم چوک اور شاہراہوں پر قبضہ رکھنے کی ایک کوشش مسلسل ہے خدمت خلق ہرگز نہیں کو ان کی دسترس سے دور کر دیا جائے کاہل اور سست پرندوں کو اڑان سکھانے کی واحد حکمت عملی سوائے اس کے کچھ نہیں کے جس شاخ پر وہ ہر وقت بیٹھے رہتے ہیں اسے ہی کاٹ دیا جائے۔