قانون کی حکمرانی

370

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی سیاسی جدو جہد کا مقصد ملک میں اسلامی قانون کی بالادستی اور اسلامی جمہوری معاشرے کی تشکیل ہے مگر مقتدر اور بااختیار طبقہ اسلام سے الرجک ہے اس طبقے کا سیاسی نصب العین ذاتی مفادات اور تحفظات کا حصول ہے ایک بھائی وزیر اعظم ہوتا ہے تو دوسرا بھائی وزیر اعلیٰ ہوتا ہے باپ وزیر اعظم ہوتا ہے تو بیٹا وزیر اعلیٰ ہوتا ہے حالاں کہ معروضی حالات کے پس منظر سے دیکھا جائے تو سری لنکا کی معاشی اور سیاسی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک بھائی صدر ہے تو دوسرا بھائی وزیر اعظم ہے، مفاد پرستی کی سوچ اور سیاست ملک کو تباہ کر دیتی ہے وطن عزیز کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ہر قیمت پر اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہیں انہیں عوام کی مشکلات اور ملک کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں مگر یہ کہنا زیادہ مناست اور حسب حال ہوگا کہ ان کی نظر میں عوامی مسائل کی کوئی حیثیت ہی نہیں، یہ جب بھی قومیت کی بات کرتے ہیں تو ان کا مقصد اپنے خاندان سے ہوتا ہے۔
ملک اور قوم کی خوشحالی سے مراد ان کی اپنی خوشحالی ہوتا ہے چوہتر برسوں سے اقتدار میں رہ کر جاگیرداروں اور وڈیروں نے بیرونی قوتوں کی وفاداری کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں نے ملک کو قوم کو بیرونی اور اندرونی قرضوں کے انبار کے نیچے دبا دیا ہے قوم سسک رہی ہے اور ملک روز بروز غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ سودی قرضوں نے ملک کی معیشت کو عالمی اقتصادی اداروں کا غلام بنا دیا ہے ملک کو بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید دھنستا جا رہا ہے۔ بجٹ کا نصف حصہ قرضوں کی مد میں چلا جاتا ہے اور ملک چلانے کے لیے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے بد نصیبی یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود ہی نہیں جو ان تینوں حکومتوں سے قرض کی مد میں لی گئی رقم کا حساب طلب کر سکے ملک بحرانوں کی ضد میں ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ الیکشن ریفارمر کے فوری بعد الیکشن کرائے جائیں ملک میں غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر غیر ملکی سرمایہ دار سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں حتیٰ کہ پاکستانی صنعت کار بھی سرمایہ کاری سے اجتناب برت رہے ہیں برسر اقتدار کوئی بھی جماعت ہو حکومت آئی ایم ایف کی ہوتی ہے حکمران اسی کے حکم کے پابند ہوتے ہیں حتیٰ کہ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اسی کے حکم پر اضافہ کیا جاتا ہے۔
یہ کیسی بد دیانتی ہے کہ پاکستان کا حصول اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کیا گیا تھا مگر چوہتر برسوں کے بعد بھی انگریز کا قانون نافذ العمل ہے جس نے عدلیہ کو بے وقار کر دیا ہے جس ملک کی عدلیہ کو بے توقیر کرنا سیاستدانوں کا وتیرہ بن جائے وہاں نظام مملکت ملک و قوم کی بہتری کے بجائے رسوائی کا باعث بن جاتا ہے۔ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ پہ رکھی گئی تھی مگر پاکستان کو اسلامی نظام سے محروم رکھا گیا جب تک قوم یہ باور نہیں کر لیتی کہ آزمائے ہوئے لوگوں کو آزمانے سے آزمائشیں بڑھتی ہیں مسائل اور مصائب پیدا ہوتے رہتے ہیں اور حکمران طبقے کا یہی مقصد ہے اگر ملک مستحکم اور قوم خوشحال ہو جائے تو حکمرانوں کی تجوریاں خالی ہو جائیں گی یہ کیسی افسوس ناک صورتحال ہے کہ عوام افلاس کے ہاتھوں مر رہے ہیں غربت سے نجات پانے کے لیے خود کشی کر رہے ہیں اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کو قتل کر رہے ہیں مگر حکمران طبقہ دولت کے نشے میں اتنا بد مست ہے کے کہ اسے کچھ سنائی دے رہا ہے نہ دکھائی دے رہا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا ارشاد گرامی ہے کہ ان کی خوہش ہے کہ عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے وکلا سیاسی جماعتوں کے لیے استعمال نہ ہوں بلکہ شہریوں کے حقوق اور آئین و قانون کی بالا دستی کے لیے جدو جہد کریں۔ سراج الحق کے فرمان سے انکار ممکن نہیں مگر بنیادی مسئلہ یہ ہے جو لوگ شہ بالابننے کے جنون میں مبتلا ہوں وہ خواہش کے گھوڑے سے اُترنے سے آمادہ ہی نہیں ہوتے حالاں کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ملک کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کے لیے آئین اور قانون کی بالا دستی انتہائی ضروری ہے کہ جب تک پہلے زینے پر قدم نہ رکھا جائے آدمی اوپر نہیں چڑھ سکتا۔
مافیا نے سیاست کو یرغمال بنا رکھا ہے پختون خوا میں تحریک انصاف نو برسوں سے حکمرانی کے مزے لے رہی ہے پیپلز پارٹی سندھ میں چودہ سال سے اقتدار سے لطف اندوز ہو رہی ہے نواز لیگ پنجاب میں دس سال تک متواتر حکمران رہی مگر تینوں جماعتوں کی کارکردگی عوام دشمنی پر مبنی رہی ہے بلوچستان کے مسائل پر بھی کسی حکومت نے توجہ نہ دی مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے بد نصیبی یہ بھی ہے کہ حکمران کوئی بھی جماعت ہے وعدے کر کے بھول جاتی ہے جو بھی حکمران بنتا ہے تماشائی بن جاتا ہے اس پس منظر میں قوم کا باشعور طبقہ یہ سوچنے لگا کہ مقتدر قوتیں تمام جماعتوں کو آزما چکی ہیں تحریک انصاف کو برسر اقتدار لانے کا مقصد یہ تھا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے باری باری برسر اقتدار آنے کے نظام کو ختم کیا جائے کیوں کہ یہی جماعتیں عوام کے مسائل اور افلاس کے اصل وجہ ہیں دو جماعتی نظام سے قوم کی جان چھڑانے کے لیے عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا مگر وہ بھی مافیا کے ہاتھو ں کٹھ پتلی بن گئے۔ غور طب امر یہ ہے کہ ہیئت مقتدرہ جماعت اسلامی کو موقع دینے پر آمادہ کیوں نہیں حالات اور واقعات بتا رہے ہیںکہ مقتدر طبقہ اسلامی نظام سے خوف زدہ ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی برسر اقتدار آئی تو ان کا خوف اپنی معنویت کھو دے گا کیونکہ اسلامی نظام میں سب کے حقوق برابر ہوتے ہیں اسلام کی نظر میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں سب قانون کے تابع ہوتے ہیں۔