انٹرا پارٹی الیکشن کی شرط

594

دنیا کے تمام جمہوری ممالک اور بالخصوص ترقی یافتہ اور یورپی ممالک میں ہر وہ سیاسی جماعت جو انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے تو اسے پہلے اپنی پارٹی میں انتخابات کرانا ضروری ہوتے ہیں بلکہ بعض ممالک میں تو اس سیاسی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے نہیں دیا جاتا جس نے پہلے سے اپنی پارٹی کے اندر انتخابات نہ کرائے ہوں۔ یہ ایک بالکل منطقی بات ہے کہ جس پارٹی میں اپنے اندر جمہوریت نہ ہو وہ ملک میں کیا جمہوریت نافذکرسکے گی۔ پاکستان میں جتنی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں سوائے جماعت اسلامی کے کسی کے یہاں پارٹی انتخابات نہیں ہوتے البتہ اے این پی کے بارے میں سنا ہے کہ ان کے یہاں بھی انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر سیاسی جماعت بہت بلند آواز سے جمہوریت کا راگ الاپتی ہے کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے کوئی کہتا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ جمہوریت کے گیت گانے والے سیاسی رہنما اپنی جماعت میں انتخاب نہیں کرواتے۔
ہمارے ملک میں تیس سال سے زائد عرصے تک مارشل لا کا دور رہا ہے، بقیہ مدت میں سیاسی جماعتیں انتخابات جیت کر حکومتیں بناتی رہی ہیں مارشل لا کے دور میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہی ملک کا سربراہ بھی ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے کور کمانڈرز کے اجلاس کے مشوروں سے حکومتی امور چلاتا ہے پھر جب وہ ایڈمنسٹریٹر صاحب اپنی مرضی کے انتخاب کرواتے ہیں اس کے ذریعے کاسمیٹک اسمبلی وجود میں آتی ہے۔ بظاہر تو اسمبلی کی ساری کارروائی آئینی اور جمہوری اصولوں کے مطابق چلتی ہے، وہاں مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں لیکن وہ سب آمر وقت کے تابع ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے برسراقتدار آنے والے لوگ بظاہر تو جمہوری حکمران کہلاتے ہیں لیکن حکومتی امور چلانے میں ان کا مزاج بھی مارشل لا ایدمنسٹریٹروں والا ہی ہوتا ہے۔ خوشامدی انہیں اچھے لگتے ہیں۔ اسمبلیوں میں قانون سازی کے عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے آرڈیننس کا سہارا لیا جاتا ہے ہمارے جمہوری حکمرانوں میں یہ آمرانہ مزاج اس لیے تشکیل پاتا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی پارٹی کے اندر انتخابات نہیں کروائے ہر شہر اور اضلاع میں خوشامدیوں کی نامزدگیاں کی جاتی ہیں جو ہر معاملے میں ان کے حکم کے پابند ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے دیکھا جائے کہ سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کا نہ ہونا ملک میں جمہوری روایات و کلچرکی کمزوری ہے لیکن اس کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتیں بھی اس کی ذمے دار ہیں اور ان سب کے بعد بہت حد تک ہمارا لیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اس کا ذمے دار ہے وہ اگر شروع سے سختی سے یہ پابندی لگاتا کہ پارٹی کے اندر انتخاب نہ کرانے والی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا تو یہ مسئلہ کسی حد تک اپنے منطقی حل کے لیے آگے بڑھ چکا ہوتا ہمارے ملک میں جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو اپنے قیام سے آج تک اپنے ٹائم شیڈول کے مطابق باقاعدہ پارٹی انتخابات کرواتی ہے۔ جماعت اسلامی میں امیر جماعت پاکستان کا انتخاب پانچ سال کے لیے ہوتا ہے باقی اس سے نیچے کے جتنے مناصب ہیں ان کی مدت تین سال کی ہوتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان کے انتخاب میں پورے ملک سے ارکان جماعت ووٹ دیتے ہیں ارکان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس کو چاہیں امیر جماعت کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں کسی رکن کو خود کسی بھی عہدے کے لیے امیدوار بننے کا حق نہیں جو کوئی ایسا اظہار بھی کرے گا اس کی رکنیت منسوخ کرکے اسے جماعت سے خارج کردیا جائے گا اب چونکہ ارکان کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس لیے مرکزی شوریٰ کی طرف سے ارکان کی رہنمائی کے لیے تین نام تجویز کردیے جاتے ہیں لیکن ارکان پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ان ہی تینوں میں سے کسی کو ووٹ دیں وہ چاہیں تو ان تینوں کے علاوہ کسی اور کو بھی رائے دے سکتے ہیں۔
اسی طرح جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا بھی انتخاب ہوتا ہے مرکزی کے علاوہ صوبائی، شہری اور ضلعی شورائوں کا بھی انتخاب ہوتا ہے۔ البتہ مرکزی امیر کے علاوہ ہر سطح کے امیر، جن میں صوبائی، شہری اور ضلعی امراء ہیں کا استصواب ہوتا ہے۔ مثلاً امیر صوبہ کے لیے الف نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ب نے اس سے کم اور ج نے ب سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہیں عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ جس کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں امیر جماعت شوریٰ کے مشورے سے اسی کو امیر صوبہ بنانے کا اعلان کردیتے ہیں۔۔ لیکن۔۔ امیر جماعت پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ جماعت کے بعض مصالح کے پیش نظر اپنی شوریٰ کے مشورے سے الف کے علاوہ ب یا ج کے تقرر کا اعلان کرسکتا ہے اسی کو استصواب کہتے ہیں۔ صرف امیر جماعت پاکستان کا انتخاب ارکان کی کثرت رائے سے ہوتا ہے اور بقیہ تمام سطح کے امراء کا استصواب رائے سے تقرر ہوتا ہے۔ جماعت میں تو حلقوں کی سطح تک کارکنان کی آرا کی روشنی میں ناظمین حلقہ جات کا تقرر ہوتا ہے۔
اب سے دس پندرہ برس قبل تحریک انصاف نے اپنے یہاں انٹرا پارٹی الیکشن کروائے تھے اس میں پورے ملک میں ہر سطح کے انتخاب میں ہر شہر اور ڈسرکٹ میں کارکنان کے درمیان شدید اختلافات، جھگڑے اور کہیں کہیں سرپھٹول بھی ہوئی، عمران خان کے پاس کئی نتائج پہنچے نچلی سطح کے ہر گروپ نے اپنی پسند کے عہدیداروں نام اوپر بھیج دیے۔ عمران خان نے جسٹس وجیہ کو یہ ذمے داری دی کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ پیش کریں جس میں اصل جیتنے والوں کے نام اور جن لوگوں نے لڑائی جھگڑے کیے ان کے بارے میں بھی رپورٹ پیش کریں۔ جسٹس وجیہ نے انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کرکے عمران خان کو اپنی رپورٹ پیش کی اور کچھ لوگوں کے بارے میں یہ تجویز دی کہ انہیں تنظیم سے الگ کردیا جائے یہ لوگ تنظیم کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ عمران خان نے وہ رپورٹ لے کر سرد خانے میں ڈال دی، کئی بار جسٹس وجیہ سے اس حوالے سے عمران خان کو یاد دہانی کروائی لیکن عمران خان نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ جسٹس وجیہ نے بالآخر بددل ہو کر تحریک انصاف سے استعفا دے دیا۔
آخر میں تمام سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی جماعت کے اندر نامزدگیوں کا سلسلہ ختم کرکے انٹرا پارٹی الیکشن کی روایت ڈالیں شروع شروع میں تو کچھ مشکلات پیش آئیں گی لیکن جب یہ مسلسل اپنے ٹائم شیڈول کے ساتھ ہوتا رہے گا تو اس میں اصلاحات بھی ہوتی رہیں گی۔ دوسری طرف ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی یہ مطالبہ کریں گے کہ وہ یہ قانون کمیشن کے اندر منظور کرائیں کہ آئندہ انتخابات میں ان ہی سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے گا جنہوں نے اپنی جماعت کے اندر انٹراپارٹی الیکشن کرائے ہوئے ہوں گے۔