اپنی خیر ہے اگلی نسل کا سوچیں

813

پاکستانی روپیہ ہی نہیں پوری دنیا کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہیں کیونکہ امریکا نے شرح سود بڑھا دیا ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انڈیا سب ملکوں کی کرنسی گری ہے اور مسلسل گررہی ہیں۔ قرائین بتا رہے ہیں کہ اگلے چند دنوں میں پوری دنیا میں 2008/2009 والی معاشی صورتحال ہوگی۔ مہنگائی، روزگار کی کمی، خوراک کی قلت، بارشیں کم یا پھر سیلاب اور طوفان۔ شدید گرمی اور شدید سردی۔ اس زمین کی ایسی تیسی ہم زمین زاد خود کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے اسی لیے بیالیس بلین ڈالر مختص کیے ہیں کہ انتہائی غریب ممالک اور دھکا اسٹارٹ ملکوں کی معاش کو ٹیک لگ سکے۔ ایسے میں نہ عمران خان سنبھال سکتا تھا نہ شہباز شریف سنبھال سکتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو خود سنبھالنا ہے۔ آج سے شروع کریں اور اگلے دو سال تک عیاشی ختم کریں اور صرف ضرورت کی چیزیں خریدیں، مہنگا اور امپورٹڈ فون نہ خریدیں۔ ہم نہ ایلون مسک ہیں اور نہ ہی جنت مرزا کہ ہمارا کام دھندہ ہی موبائل سے ہے۔ بچوں کے ولایتی ڈائپرز بند کریں اور مقامی بنے ہوئے ڈائپرز استعمال کریں۔ اندرون شہر موٹر سائیکل استعمال کریں ہمارا پٹرول ہمارا نہیں ہے بلکہ باہر سے آتا ہے۔ ائر کنڈیشن 26 سے اوپر نہ جانے دیں۔ کھانے پینے اوڑھنے پہننے اور رہنے میں ہر ولایتی شے کا استعمال ترک کردیں اور مقامی اشیاء استعمال کریں۔ بچت کو قومی مزاج بنانا ہوگا۔ وزرا اور ارکان اسمبلی کا مفت پٹرول، بجلی، سفر رہائش اور علاج نہ عمران خان نے ختم کیا نہ یہ حکومت ختم کرے گی۔ اربوں پتی صنعت کاروں اور رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کو ٹیکس سبسڈی نہ عمران خان نے ختم کی نہ یہ حکومت ختم کرے گی۔ جی او آر کالونیوں، باتھ آئی لینڈ اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بیوروکریسی اور ججوں کے اللے تللے نہ عمران خان نے ختم کیے نہ یہ حکومت کرے گی۔ اگر حکومت کی طرف سے شہروں کے بیچوں بیچ جم خانہ، گالف کلب اور اشرافیہ کے چونچلوں کے لیے قائم سیکڑوں کلبوں کو نیلام کردیا جائے، وزراء اور ارکان اسمبلی کی مراعات 75 فی صد کم کردی جائیں، جائداد کی وراثت اور تحائف والی منتقلی پر بھی ٹیکس لگایا جائے، درآمدات آدھی کردی جائیں تو ملک معاشی ایمرجنسی سے بچ سکتا ہے اور ہم سب انفرادی حیثیت میں وہ کام کرلیں جن سے اجتماعی طور پر ہمارے معاشی بحران کو حل کرنے میں کوئی مدد مل سکے تو یہ ملک کی اس سے بڑی خدمت ہوگی۔
تحریک انصاف حکومت کا ایک اور مبینہ اسکینڈل سامنے آگیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے ریکارڈ نہ ملنے پر ایک پاکستانی بزنس مین پر جرمانہ کرکے تقریباً 150 ملین پاؤنڈ پاکستان بھجوائے مگر مسروقہ مال ریاست کے اکاؤنٹ میں نہیں آیا۔ جو کاغذ کابینہ کو دکھایا گیا اس کی تحقیقات کریں گے، پچھلی حکومت میں برطانیہ سے منی لانڈرنگ کیس کے پیسے آئے وہ ریاست پاکستان کے تھے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ غوث بخش مہر نے جو باتیں کی ہیں وہ ٹھیک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جتنا میں محب وطن ہوں اتنے دوسرے بھی ہیں، ستر سال میں بہت سارے غدار بنائے گئے، میرے والد کو بھی غدار قرار دیا گیا تھا، ایک دوسرے کو غدار کہنے کی رسم ہم نے ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ گورنر سندھ کے تقرر کے بارے میں معلومات نہیں، منگل کو ایوان کو بتاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت میں برطانیہ سے منی لانڈرنگ کیس کے پیسے آئے وہ ریاست پاکستان کے تھے لیکن وہ 140ملین پاؤنڈ عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیے گئے۔ یوں تو خواجہ صاحب کی تقریر بہت مدلل اور پْرمغز تھی، تاہم زیر ِ نظر کالم میں پوری تقریر من وعن بیان نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ 450ارب روپے پاکستان کے خزانے میں آنے چاہیے تھے۔ منی لانڈرنگ ثابت ہوئی، وہ رقم نیب کے حوالے کی گئی اور جنہوں نے واردات کی وہ رقم انہی کو دے دی گئی۔ القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹی عمران خان اور ان فیملی تھی، روحانیات کی یونیورسٹی بنائی گئی اس میں 32 طلبہ مینجمنٹ سائنسز پڑھتے ہیں۔ یونیورسٹی کے نام پر 450 کینال پھر 200 کینال زمین فرحت شہزادی کو دی گئی۔ یونیورسٹی کا ریکارڈ کسی بھی وزارت میں موجود نہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ برطانیہ سے پوچھا جائے گا کہ عمران خان کو کیوں نوازا گیا، یہ ایک واردات ہے، ایسی درجنوں وارداتیں کی گئی ہیں، جو جرمانہ برطانیہ نے کیا تھا اس پر عمران خان سے وضاحت مانگیں گے۔ قبل ازیں غوث بخش مہر نے کہا کہ ایک رکن کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ اینٹی اسٹیٹ ہے، کوئی اینٹی اسٹیٹ ہے تو وہ اسمبلی میں کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ اینٹی اسٹیٹ رکن سے ضرورت کے وقت تو ووٹ لے لیا گیا۔ محسن داوڑ نے کہا کہ اس ملک میں غدار کے سرٹیفکیٹ بھی شاید کسی معیار پر بانٹے جاتے ہیں، ہم پر تو چائے پینے پر بھی غداری کے مقدمات بنائے گئے مگر جو دن رات میر جعفر و میر صادق کی بات کررہا ہے اس کو کوئی پوچھتا نہیں۔ انہوںنے کہاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے مگر پارلیمنٹ لاعلم ہے، سنا ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سوات کے سابق ترجمان اور ایک سینئر رہنما محمود خان کو رہا کردیا گیا ہے، صدر مملکت نے معافی دے دی ہے مگر اس ایوان کو اس بارے علم نہیں، اس ایوان میں دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ بحث ضروری ہے، جن فاٹا کے تاجروں کے کاروبار کو لوٹا گیا تھا ان کو بھی امدادی چیک کے حصول میں بہت مشکلات ہیں۔