قیامت کی گرمی اور پانی کا کال

615

گرمی ہو یا سردی ہر موسم میں شدت اپنا اثر دکھاتی ہے اور عام آدمی اس شدت سے بے حال ہوجاتا ہے۔ اِن دنوں گرمی کا موسم ہے اور قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے۔ سورج آگ برسا رہا ہے۔ میدانی علاقوں میں ہوا گرم ہو کر لُو ہوگئی ہے جو چہرے کو جھلسا رہی ہے۔ ایسے میں پانی کی قلت بلکہ نایابی نے اس آزمائش کو دوچند کردیا ہے۔ پانی زندگی سے عبارت ہے، حیات ِ انسانی کی ابتدا پانی سے کی گئی۔ خالق کائنات نے انسان کو پانی کے ایک قطرے سے پیدا کیا اور پانی کے کرشمے سے اسے جنت ارضی کا مالک بنادیا۔ پانی نہ ہوتا تو زمین پر انسانی حیات کا ارتقا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں سمندر کے کنارے یعنی لب ِ ساحل آباد ہیں وہ خشکی میں گھری ہوئی قوموں کے مقابلے میں مادی اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ اور ممتدن ہیں۔ پاکستان میں بھی سمندر کے کنارے آباد شہر کراچی دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ اور نسبتاً خوشحال شہر ہے۔ دوسرے شہروں والے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پانی کی قلت نے اس شہر کی بھی مت مار دی ہے۔ لوگ اب پانی کے ٹینکروں پر گزارہ کررہے ہیں جن کا ریٹ ڈالر کے حساب سے بڑھتا رہتا ہے۔ ہم خود ایک نیم پہاڑی علاقے کے باسی ہیں لیکن اہل کراچی سے موبائل پر یومیہ رابطہ رہتا ہے وہ بتاتے ہیں کہ پانی کی قلت نے ان سے زندگی کی رونق چھین لی ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر کا حال ہے تو اندازہ کیجیے کہ دوسرے شہروں کا کیا حال ہوگا۔
چند روز پہلے جسارت میں ایک مہربان نے سندھ میں پانی کی قلت کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ سندھ کیا پورا ملک اس قلت کا شکار ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس اعتبار سے یہاں پانی کی قلت بہت زیادہ ہے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے میں تین دریائوں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کرلیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان دریائوں سے ملحق پنجاب کا ایک وسیع رقبہ بنجر اور ویران ہوگیا جس رقبے پر سرسبز و شاداب فصلیں لہلہاتی تھیں وہ ریگستان میں تبدیل ہوگیا۔ چولستان بھی ایک ایسا علاقہ ہے جو کبھی شاداب ہوا کرتا تھا لیکن اب وہاں سوائے ریت کے اور کچھ نہیں ہے۔ ان دنوں وہاں قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے اور پانی کا ایسا کال ہے کہ پرندے پانی کی ایک بوند کی تلاش میں اُڑتے ہوئے گر کر مررہے ہیں۔ پالتو جانور پیاس سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ رہے انسان جو صدیوں سے وہاں آباد ہیں لیکن اب کی دفعہ پانی کا ایسا کال پڑا ہے کہ وہ جان بچانے کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ چولستان پنجاب کا علاقہ ہے لیکن پنجاب کی نوزائیدہ حکومت صورت حال سے بے خبر اپنے دھندے میں مصروف ہے۔ البتہ جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن اہل چولستان کی مدد کو پہنچی ہے اور انہیں پانی اور خوراک فراہم کررہی ہے۔ پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں پینے کے صاف پانی کی بھی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ سرکاری واٹر سپلائی اسکیم صرف چند شہروں میں ہیں لیکن اس کا پانی دیگر ضروریات کے لیے تو مناسب ہے البتہ پینے کے قابل نہیں ہے۔ حکومت نے کہیں کہیں فلٹریشن پلانٹ بھی لگائے ہیں لیکن وہ پوری آبادی کو کفالت نہیں کرتے۔ ایسے میں بے شمار نجی واٹر کمپنیاں وجود میں آگئی ہیں جو بوتلوں میں سادہ پانی بھر کے سونے کے بھائو بیچ رہی ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے وہ یہ پانی خرید کر پی رہے ہیں۔ اگرچہ لیبارٹری ٹیسٹ میں کئی کمپنیوں کے پانی آلودہ پائے گئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی حکومت نے بھی عوام کو پانی فراہم کرنے کی ذمے داری پوری نہیں کی۔ آبادی میں غیر معمولی اضافے کے سبب شہر پھیل رہے ہیں، نئی نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں وجود میں آرہی ہیں۔ بڑے بڑے ادارے اس کاروبار میں ملوث ہیں اور اربوں میں کاروبار کررہے ہیں۔ بلاشبہ وہ اپنے صارفین کو پانی سمیت تمام ضروری سہولتیں فراہم کرتے ہیں لیکن اُن تک ہر کہہ ومہ کی رسائی ممکن نہیں، جن کی جیبیں بھاری ہیں وہی ان اونچی ہائوسنگ اسکیموں میں مکان بنا سکتے ہیں۔ رہا عام آدمی تو وہ جن ہائوسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹ خریدتا ہے اس پر مکان بنانے کے لیے اُسے تمام وسائل خود جمع کرنے پڑتے ہیں۔ پانی ان میں سرفہرست ہے کہ اس کے بغیر مکان کی ایک اینٹ نہیں رکھی جاسکتی۔ وہ پانی کے لیے زمین میں بور کرواتا ہے پھر مکان کی تعمیر شروع کرتا ہے۔ یہی بور بعد میں اس کے اہل خانہ کے لیے پانی کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ پنجاب میں کبھی 80 فٹ کی گہرائی پر پانی آجاتا تھا اور برسوں چلتا تھا لیکن اب زیر زمین پانی کی سطح اتنی نیچے چلی گئی ہے کہ 300 فٹ تک کھدائی کے بعد پانی نکلتا ہے اور بور دو چار سال کے بعد خشک ہوجاتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے اور ملک کی ایک بڑی آبادی کا انحصار اسی پانی پر ہے۔
پانی کی فراہمی کا ایک قدرتی ذریعہ بارشیں ہیں۔ بارشوں ہی سے فصلیں لہلاتی ہیں اور زمین کی روئیدگی سے شجر و حجر پر نکھار آجاتا ہے۔ بارشیں ہمیں پینے کا پانی بھی فراہم کرتی ہیں لیکن افسوس ہمارے ہاں اس پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ لاکھوں کیوسک پانی ندی نالوں کے ذریعے بہہ کر سمندر میں جاگرتا ہے اور ہم اسے استعمال نہیں کرپاتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دوچار نہیں سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں جن میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے۔ یہی پانی فلٹریشن کے ذریعے آب نوشی میں بھی استعمال ہوسکتا ہے اور آبپاشی کی قلت بھی دور ہوسکتی ہے۔ پاکستان کا شمار اب عالمی سطح پر بھی خشک سالی والے ملکوں میں ہورہا ہے حالاں کہ یہ خشک سالی ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان آنے والے تمام دریائوں کا منبع ریاست جموں و کشمیر میں ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت نے جن دریائوں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا تھا۔ بھارت نے اُن دریائوں پر ڈیم بنا کر ان کا پانی بھی روک لیا ہے۔ پاکستان کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے سندھ ہے۔ بھارت اربوں روپے کی لاگت سے دریائے سندھ کا رُخ موڑنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ پاکستان کو دریائی پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کردیا جائے۔ قائداعظم نے کشمیر کی اسی اہمیت کے سبب اسے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔ یہ شہہ رگ دشمن کے قبضے میں ہے اور وہ مسلسل اس پر اپنی گرفت سخت کررہا ہے۔ پاکستانی فوج اور اس کی قیادت اپنی کم ہمتی کے سبب کشمیریوں کو تو آزادی دلا نہیں سکی لیکن کیا وہ اپنی شہہ رگ کو چھڑانے کے لیے بھی کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھائے گی اور یونہی سسک سسک کر مرنا قبول کرلے گی؟ پانی زندگی ہے اور پانی سے محرومی موت ہے۔ مستقبل کا مورخ کہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر نہ سہی پانی پر ضرور ایک جنگ ہو کر رہے گی۔