معیشت کو پٹری پر چڑھانے کے لئے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے، میاں زاہد حسین

203

کراچی:نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کی تباہ حال معیشت کو پٹری پر چڑھانے کے لئے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ موجودہ وسیع البنیاد حکومت ستر فیصد ملک کی نمائندگی کر رہی ہے

اور سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو معیشت کی بہتری کے ایجنڈے پر متفق کرنا ضروری ہے جس کے بعد نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی بندش یا فروخت ضروری ہے۔ توانائی کا شعبہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے جو کھربوں روپے کے نقصانات کر کے ملکی معیشت کو یرغمال بنا رہاہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ٹیکس کا نظام خامیوں کا مجموعہ ہے جسکی وجہ سے معیشت کا دم گھٹا ہوا ہے۔

ٹیکس گزار کو سزا اور ٹیکس چور کو ایمنسٹی کی پالیسی غلط ہے جس پر عالمی اداروں کو بھی سخت اعتراض ہے مگر ایسی اسکیموں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ٹیکس کا نظام غیر متوازن ہے۔ صنعتی شعبہ پر ٹیکس کا بوجھ بہت زیادہ ہے جبکہ زرعی شعبہ جو صنعتی شعبہ کے تقریباًبرابر ہے

کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ ملک کے ایک فیصد جاگیردار بائیس فیصد زمین پر قابض ہیں جس سے انھیں کم از کم آٹھ سو ارب روپے کی آمدن ہوتی ہے مگر ان سے صرف دو ارب روپے ٹیکس لیا جاتا ہے جو ملکی سالمیت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ زرعی اشیاء کی قیمت میں زبردست اضافے سے بڑے زمینداروں کی آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے مگر کاشتکار اب بھی بدحال ہے جسے خوشحال بنائے بغیر یہ شعبہ ترقی نہیں کر سکتا۔

اگر مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں نے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے میں بھرپور دلچسپی نہ لی تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ جب عرب ممالک صحرائوں کو سرسبز بنا کر زراعت کر سکتے ہیں تو پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے مگر اس جانب بھی توجہ نہیں دی جا رہی ہے

اور زراعت سے وابستہ تمام شعبوں کو نظر انداز کرنے سے آٹھ ماہ کا فوڈ امپورٹ بل 6.4 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کو نو سو ارب روپے سے کم کر کرکے چھ سو ارب روپے کر دیا تھا مگر اب اس میں مذید کٹوتی ضروری ہے

کیونکہ تیل اور گیس کی درآمد اورایندھن پر سبسڈی بہت مہنگی پڑ رہی ہے اور خزانہ میں اسکا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اس وقت معیشت کی حالت بہت ہی خراب ہے اور سخت و غیر مقبول فیصلوں کے بغیر اسکی بحالی ناممکن ہے۔