امریکا کی غلامی پر پردہ ڈالنے والے

848

انسان کے لیے غلامی سے بدتر چیز کوئی نہیں ہوسکتی۔ غلامی کسی انسان کی ہو یا دولت کی، نفس امارہ کی ہو یا برطانیہ اور امریکا کی اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال نے کہا ہے۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
لیکن بدقسمتی سے برصغیر میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے غلامی کو دل و جان سے قبول کیا ہے بلکہ اسے سراہا ہے۔ برصغیر میں اس کی سب سے بڑی مثال سرسید احمد خان ہیں۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو اللہ کی رحمت قرار دیا ہے۔ وہ مسلمانوںکو اس بات کا درس دیتے رہے کہ وہ انگریزوں کے ’’فرمانبردار‘‘ بن کر رہیں۔ انہوں نے جنگ آزادی کے مجاہدین کو ڈاکو، بدمعاش اور حرام زادہ تک کہا ہے۔ سرسید کو لوگ ایک فرد سمجھتے ہیں۔ وہ صرف ایک فرد نہیں تھے۔ وہ ایک فرد سے زیادہ ایک ذہنیت تھے۔ ایک تناظر تھے۔ سرسید مرگئے مگر ان کی ذہنیت اور ان کا تناظر آج بھی زندہ ہے۔ خورشید ندیم جاوید احمد غامدی کے شاگرد ہیں اور جاوید احمد غامدی کی فکر مسلمانوں کو مغرب کی غلامی سکھاتی ہے۔ چناں چہ خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں پاکستانی حکمرانوں کی امریکی غلامی پر پرداہ ڈالا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہم امریکا کے ’’غلام‘‘ تھوڑی ہیں ہم تو صرف امریکا پر ’’انحصار‘‘ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مزید کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’تاریخ یہ ہے کہ چھوٹی اقوام کے لیے مطلق آزادی ممکن نہیں ہوسکی۔ اس کے متعدد اسباب تھے۔ امریکا نے مسلسل جدوجہد سے دنیا میں یہ مقام حاصل کرلیا کہ اسلحے سے لے کر علم تک، قوت کی ہر علامت پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ اگر کسی ملک کو جدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت ہے تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ امریکا یا اس کے اتحادیوں سے رجوع کرے۔ اگر کسی کو جدید ترین علم حاصل کرنا ہے تو اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ امریکا یا یورپ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے۔
اس پر مزید یہ کہ اگر آپ کو اپنی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیوں تک رسائی چاہیے تو اس کا راستہ بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کی چاردیواریوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اپنی اقتصادی حالت کو سنوارنے کے لیے جن مالیاتی اداروں کی مدد چاہیے، وہ امریکا کی مٹھی میں ہیں۔ اب اگر کوئی ملک اقتصادی طور پر ترقی کرنا چاہتا ہے، اپنے شہریوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا ہے یا اپنے دفاع کے لیے جدید ترین ہتھیار چاہتا ہے تو وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ یہی بات چھوٹے ممالک کو مجبور کرتی ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو خراب نہ ہونے دیں۔ ترقی پزیر ممالک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔
گزشتہ ایک عشرے میں چین خود کو اقتصادی میدان میں اس سطح پر لے آیا ہے کہ امریکا کا ایک حد تک متبادل ہوسکتا ہے، تاہم دیگر بے شمار شعبے ایسے ہیں جن پر امریکا اور اس کے حواریوں کا تسلط آج بھی قائم ہے۔ یوں چین کی ترقی کے باوجود وہ امریکا کا متبادل نہیں بن سکتا۔ روس تو کسی شمار میں نہیں۔ ترقی پزیر ممالک آج بھی امریکا پر انحصار کے لیے مجبور ہیں۔
کیا اس انحصار کو ہم غلامی کہہ سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ غلامی نہیں تاریخ کا جبر ہے۔ اس سے نکلنے کا راستہ موجود ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم تاریخی عوامل کو اپنے حق میں کرلیں۔ یہ ایک طویل سفر ہے اور اس میں قدم قدم پر بصیرت اور صبر کا امتحان ہے۔ ہیجان اور بے صبری جیسے عوامل منزل کو کھوٹا کرنے کے مترادف ہے۔ جاپان، چین کی سیاسی قیادت اور صدام حسین اس کی مثالیں ہیں۔ جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد صبر کیا اور طویل سفر کی تیاری کی۔ یہی کام چین نے کیا۔ دونوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ صدام حسین نے للکارا اور بے صبری کی۔ ان کا اور عراق کا انجام بھی ہمار سامنے ہے۔
آج امریکا کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہمارے داخلی معاملات میں براہ راست مداخلت کرے اور اپنی مرضی کے حکمران بنوائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ طاقت کے مستقل ریاستی مراکز کے ساتھ اس کا روزانہ کی بنیاد پر رابطہ ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوا۔ دوسرا، وہ یہ جانتا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے اس کے قبضہ قدرت میں ہیں، ہم جن سے مدد مانگتے ہیں اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں جو بھی حکمران ہو، وہ امریکا سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اسے اپنے منہ پر کالک ملنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہمیں غیرت کے حقیقی مفہوم اور اس کے سیاسی استعمال میں فرق کرنا ہے۔ غیرت کا حقیقی تقاضا اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرنا ہے تاکہ ان قوتوں سے بے نیاز ہوسکیں۔ جیسے جیسے ہمارا انحصار کم ہوتا جائے گا، ہماری غیرت توانا ہوتی جائے گی۔
(روزنامہ دنیا۔ 9 اپریل 2022ء)
امریکا کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر ہینری کسنجر نے ایک بار کہا تھا کہ امریکا کی دشمنی ’’خطرناک‘‘ ہے مگر امریکا کی دوستی ’’جان لیوا‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر کسنجر نے امریکا کی دوستی کو جان لیوا کیوں کہا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کی دوستی، دوستی نہیں ہوتی اس کی ’’غلامی‘‘ ہوتی ہے۔ امریکا اتنی بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت ہے کہ کوئی اس کا ’’دوست‘‘ ہو ہی نہیں سکتا۔ پاکستان کی کیا حیثیت ہے برطانیہ جیسے ملک کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کو امریکی صدر جارج بش کا ’’پلا‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔ وہ یہ معاملہ صرف برطانیہ ہی کا نہیں پوری یورپی یونین کی امریکا کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی امریکا کی خارجہ پالیسی ہے۔ امریکا کی دوستی یورپی یونین کی دوستی ہے۔ امریکا کی دشمنی یورپی یونین کی دشمنی ہے۔ یورپی یونین چین جیسی بڑی طاقت کے ساتھ تعلقات میں امریکا سے الگ راہ نکالنے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ مگر امریکا نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔ یورپی یونین کے بعض ملکوں نے چین کی 5G ٹیکنالوجی اختیار کرنے کا ارادہ کیا مگر امریکا نے انہیں دھمکا دیا۔ اس نے کہا خبردار جو تم نے چین کی ٹیکنالوجی کو اختیار کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خورشید ندیم کی اس بات کے کوئی معنی ہی نہیں کہ ہم امریکا کے ’’غلام‘‘ تھوڑی ہیں، ہم تو صرف اس پر ’’انحصار‘‘ کرتے ہیں۔ کیا واقعی پاکستان کے حکمرانوں نے گزشتہ 60 سال میں صرف امریکا پر انحصار کیا ہے؟ اس کی غلامی نہیں کی؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکا کے ساتھ خفیہ مراسلت فرما رہے تھے۔ یہ مراسلت اب شائع ہوچکی ہے۔ اس مراسلت کے مطابق جنرل ایوب امریکا کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے حکمران بڑے نااہل ہیں۔ وہ پاکستان کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب فرما رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب جس وقت امریکا سے رابطے میں تھے پاکستان امریکا پر انحصار بھی نہیں کرتا تھا۔ نہ ہم نے امریکا سے ہتھیار لیے تھے، نہ قرض لیا تھا۔ چناں چہ جنرل ایوب امریکا کے سامنے اپنے سیاست دانوں کی برائیاں کررہے تھے تو یہ ذہنیت ’’انحصار‘‘ کی ذہنیت تھی یا ’’غلامی‘‘ کی؟ جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا تو لگا دیتے اس کے سلسلے میں امریکا سے رابطہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو امریکا نے فوراً ہی مارشل لا کو قبول کرلیا، حالاں کہ امریکا جمہوریت اور آزادی کا علمبردار تھا۔ کیا اس موقع پر امریکا نے جنرل ایوب کو ایک ’’آزاد شخص‘‘ سمجھا یا اپنا ’’تابعدار‘‘؟۔ بدقسمتی سے پاکستان نے امریکی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں بھی شمولیت اختیار کرلی۔ ان معاہدوں کو اختیار کرکے پاکستان ’’آزاد‘‘ہوا یا امریکا کا ’’غلام‘‘ بنا؟ ان معاہدوں کی ’’اتھارٹی‘‘ ہمارے پاس تھی یا امریکا کے پاس؟ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان نے امریکا کو بڈ بیر کے مقام پر ایک خفیہ فوجی اڈہ دیا جہاں سے امریکا سوویت یونین کی نگرانی کرتا تھا۔ امریکا کو فوجی اڈے آزاد ممالک فراہم کرتے ہیں یا غلام ممالک؟ 1965ء کی جنگ میں ہم نے امریکا سے مدد مانگی مگر امریکا نے انکار کردیا امریکا کا یہ انکار ہماری ’’آزادی‘‘ کی علامت تھا یا ہماری ’’غلامی‘‘ کی؟ 1971ء کے بحران میں ہم نے ایک بار پھر امریکا سے مدد طلب کی۔ امریکا نے اپنا ساتواں بحری بیڑہ بھیجنے کا اعلان کیا مگر یہ بحری بیڑہ کبھی مشرقی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ یہ صورت حال اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم امریکا کے دوست یا صرف اس پر انحصار کرنے والے یا یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم امریکا کے غلام تھے۔
اس امر پر اب زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق رائے پیدا ہوتا چلا جارہا ہے کہ بھٹو کی اقتدار سے علٰیحدگی کی پشت پر امریکا تھا اور امریکا نے بھٹو کو اقتدار سے محروم کرکے انہیں ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی سزا دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ امریکا ایسا طرزِ عمل آزاد ممالک کے ساتھ اختیار کرتا ہے یا غلام ممالک کے ساتھ؟ ہم نے امریکا سے ایف 16 طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا اور ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم پیشگی کے طور پر ادا کی مگر دس بارہ سال تک امریکا نے نہ ہمیں طیارے دیے نہ ہماری رقم لوٹائی۔ بالآخر امریکا نے ہمیں اس رقم کے بدلے سویا بین آئل فراہم کیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا طرزِ عمل ’’آزاد‘‘ ممالک کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے یا ’’غلام‘‘ ممالک کے ساتھ؟ یہ ایک ’’کھلا راز‘‘ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے طیارے کو امریکا نے تباہ کرایا۔ اس سلسلے میں امریکا نے خود اسٹیبشلمنٹ کے عناصر کو استعمال کیا۔ مگر ہم نے ایک ریاست کی حیثیت سے اس پر نہ احتجاج کیا نہ امریکا کی طرف انگلی اٹھائی۔ یہ طرزِ عمل ہماری ’’غلامی‘‘ کا عکاس ہے یا ہماری ’’آزادی‘‘ کا استعارہ۔
جنرل پرویز آئے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کردیا۔ ایسا طرزِ عمل ’’آزاد لوگ‘‘ اختیار کرتے ہیں یا ’’غلام لوگ‘‘۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے جنرل پرویز کی بش پرستی کی وجہ سے انہیں ’’بشرف‘‘ کا خطاب دے دیا تھا۔ یہ خطاب ہماری ’’آزادی‘‘ کی علامت تھا یا ہماری ’’غلامی‘‘ کی؟ جنرل پرویز نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ ریاست پاکستان نے ہزاروں مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور خوب ڈالر کمائے۔ ایسا رویہ آزاد افراد کا ہوتا ہے یا غلام افراد کا۔ امریکا کے ایک وکیل نے کہا کہ پاکستانی ایسی قوم ہے جو ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں۔ ایسی بات آزاد لوگوں کے بارے میں کہی جاتی ہے یا غلام لوگوں کے بارے میں؟ ہم نے کشمیر میں جہادی عمل کو از خود موقوف کیا یا امریکا کے دبائو پر ہم نے ایسا کیا؟ اگر ہم نے امریکا کے دبائو پر ایسا کیا تو ہم آزاد قوم ہوئے یا غلام قوم؟ میاں نواز شریف جنرل پرویز سے خفیہ معاہدہ کرکے سعودی عرب فرار ہوئے تو جنرل حمید گل نے کہا امریکا پاکستان سے اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ نواز شریف ’’امریکا کے آدمی‘‘ ہیں تو وہ ’’آزاد انسان‘‘ ہیں یا ’’غلام انسان‘‘۔ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ ہم امریکا کے دبائو کے باوجود ایٹم بم بنانے میں کامیاب رہے۔ گویا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم آزاد قوم ہیں۔ بلاشبہ ایٹمی پروگرام پر پاکستان کے کسی بھی حکمران نے سمجھوتا نہیں کیا مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ہمارے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو ہم کب کے بھارت کے غلام بن چکے ہوتے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا نے پاکستان کے ایٹم بم کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ مہم چلائی ہے۔ امریکا نے بھارت کے بم کو کبھی ’’ہندو بم‘‘ نہیں کہا۔ اس نے اسرائیل کے بم کو کبھی ’’یہودی بم‘‘ کا نام نہیں دیا۔ اس نے روس اور چین کے بم کو کبھی ’’کمیونسٹ بم‘‘ قرار نہیں دیا۔ اس نے کبھی امریکا، برطانیہ اور فرانس کے بم کو عیسائی یا سیکولر بم قرار نہیں دیا مگر پاکستان کے ایٹم بم کو اس نے ’’اسلامی بم‘‘ قرار دیا۔ اس کی کہ اسرائیل اور بھارت کئی بار پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر حملے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ایک جگہ یہ تاثر بھی دیا ہے کہ چھوٹی قومیں آزاد ہو بھی نہیں سکتیں۔ ایران انقلاب سے پہلے امریکا کا غلام تھا مگر انقلاب کے بعد ایران نے امریکا سے آزاد ہو کر دکھایا بلکہ ایران نے امریکا کی مزاحمت کی۔ اس سے بھی بڑی مثال افغانستان کی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کردیا مگر افغانیوں نے 20 سال کی طویل جنگ کے بعد امریکا کو شکست دے دی۔ جو امریکا طالبان کو وحشی کہتا تھا وہی امریکا بالآخر طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہوا اور آج افغانستان طالبان کی عمل داری میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ چھوٹی بڑی قوم کا نہیں ہوتا مسئلہ خود داری اور بے غیرتی کا ہوتا ہے۔ خود دار قوم چھوٹی بھی ہو تو وہ بڑی طاقتوں کے سامنے صف آرا ہوجاتی ہے اور کسی قوم کے حکمران بے غیرت ہوں تو پھر 22 کروڑ کی قوم بھی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجاتی ہے۔