عمل کی میزان

664

ملک کی 75 سالہ سیاسی تاریخ کی کتاب تو ہمارے سامنے ہے، یہ کسی شیلف کی زینت نہیں بلکہ یہ ملک کے چوک چوراہوں میں سجی ہر سیاسی محفل میں پڑھی جارہی ہے، البتہ کتاب میں ایک باب کہیں کھوگیا ہے وہ باب ہے ملک میں آئین کی حقیقی روح کے مطابق حکومت اور سیاسی نظام کے غلاف میں لپٹی ہوئی جمہوریت، یہ ہمیں کہیں نہیں مل رہی اور اگر کسی نے کوشش کی تو اسے اقتدار ہی سے الگ کردیا گیا، تحریک انصاف کا شکوہ بھی یہی ہے، حکومت کی تبدیلی کے بعد اب ملک میں ایک نئی حکومت ہے، ایک ایسی حکومت جس کے سربراہ کی مرضی کے مطابق کابینہ نہیں بنی، بلکہ اتحادی جماعتوں کے رحم و کرم پر ہے، کابینہ کی تشکیل کی حالیہ کوشش سے دکھائی دیا کہ جیسے ریوڑیاں بانٹی جارہی ہوں، مسلم لیگ(ن) کے ہامی دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت عوام کی خدمت کرے گی، اب ہفتے میں چھے روز کام ہوگا، مگر ہم یہ بھی سن رہے ہیں ہفتے میں چھے دن کام کا فیصلہ صرف عید تک چلے گا اس کے بعد ملک میں لاک ڈائون کی باتیں ہوں گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پہلے ہی خطاب میں کچھ اعلانات کیے، جن میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کی نوید سنائی مگر مفتاح اسماعیل نے یہ کہہ پانی پھیر دیا کہ یہ ممکن نہیں، یہ پہلا یوٹرن لیا گیا، عمران خان کے ساڑھے تین سال کے اقتدار کے دوران عوام واقعی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان تھے آتشِ مہنگائی ہر چیز بھسم کیے جارہی تھی مگر جناب آج ذرا بازار جائیں تو معلوم کریں لیموں کس بھائو مل رہے ہیں، کمال کی بات ہے کہ لیموں آج ’’سونے‘‘ کے بھائو مل رہے ہیں، اب اس بات کی مبارک باد کسے دی جائے؟ ذرا معلوم کریں کہ خادم پاکستان کے خلاف یہ سازش کہاں تیار ہوئی، اور یہ بھی معلوم کیجیے کہ سازش ہے یا مداخلت۔
ذرا ماضی یاد کرتے ہیں، مفتاح اسماعیل، وزیر خزانہ تھے انہوں نے اعلان کیا تھا جن ملازمین کی آمدن 12لاکھ سالانہ ہے ان کی تنخواہوں سے کوئی ٹیکس نہیں کٹے گا، کیا انہیں اپنی کہی ہوئی بات یاد ہے؟ مفتاح اسماعیل اگر شہبازشریف کے ویژن کے مطابق نہ چلے تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ امپائر کی انگلی اٹھے نہ اٹھے شہباز شریف کی انگلی ان کے لیے اٹھ جائے گی، جب امپائر کی انگلی اٹھتی ہے تو کھلاڑی کریز پر رہنے کا حق کھو دیتا ہے، میدان سے باہر چلاجاتا ہے، آج کا سیاسی منظر یہ ہے کہ اپوزیشن کی چھتری تلے مائنس عمران خان ’’قومی حکومت‘‘ قائم ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی شہرت ہے کہ وہ کام بہت کرتے ہیں اب دیکھنا ہے کہ کیا وہ ملک کو پنجاب کی طرح چلائیں گے یا پاکستان کو پاکستان کی طرح چلائیں گے؟ اسلام آباد کے بابو تھوڑے سے نرالے ہیں، اسی لیے ہفتے میں چھے دن کام کرنے کی مزاحمت ہورہی ہے، عمران خان کہتے تھے کہ ان کی بائیس سال کی جدوجہد ہے، تب وہ وزیر اعظم بنے، یہ بات شہباز شریف پر بھی صادق آتی ہے اس منصب پر پہنچنے کی وہ پچیس سال سے خواہش دل میں پالے ہوئے تھے آج ان کی مراد بر آئی ہے اگرچہ انہیں سیاسی اور انتظامی امور چلانے کا وسیع تجربہ ہے لیکن وہ اس وقت جن حالات میں اس منصب پر فائز ہوئے ہیں، انہیں ایک سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے، سب سے زیادہ مشکل اتحادیوں اور اتحادیوں میں آصف علی زرداری کو خوش رکھنا ہے اور چیلنج یہ ہیں کہ ملک کے اقتصادی حالات بہتر نہیں ہیں جس کی ذمے داری صرف چند روز قبل ختم ہونے والی حکومت نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو گزشتہ چالیس سال سے حکومتوں میں رہے۔
اقتصادیات کا ایک اصول ہے کہ مہنگائی اور گرانی نہ ایک دم بڑھتی ہے اور نہ ہی ایک دم ختم ہوتی ہے بہتر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف چارٹر آف اکانومی پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کریں پی ڈی ایم اور مسلم لیگ (ن)
کو اپنے اقدامات اور معاشی اصلاحات کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنا ہوگا جن کے پاس آپ کو آج نہیں کل ووٹ کے لیے جانا ہے امید ہے کہ شہباز شریف کو مستقبل کی سیاست میں اپنا کردار بڑھانے کے لیے اقتصادی اصلاحات اور سیاسی مفاہمت کی ایسی سوچ کو سامنے لائیں گے یہ بات یاد رکھی جائے کہ اگر سب کچھ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کیا گیا تو پھر اس نظام ہی کی ہوا نکل جائے گی، ایک محتاط اندازہ یہی کہتا ہے کہ اقتدار سے بے دخل ہونی والی جماعت کی منشایہ ہے، اگر ہم نہیں تو سیاسی و جمہوری نظام بھی نہیں چاہیے، ابھی کل کی بات ہے نواز شریف کو جب اقتدار سے نکالا گیا تو انہیں کچھ نے کہا کہ موٹر وے سے گھر چلے جائیں اور کچھ نے کہا کہ جی ٹی روڈ استعمال کریں کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی بہترین مارکیٹنگ جی ٹی روڈ پر ہی ممکن تھی نواز شریف بوجھل دل کے ساتھ اسلام آباد سے نکلے تھے مگر گوجرانوالہ پہنچتے پہنچتے حالات بدل گئے تھے۔ آج عمران خان جلسوں میں کھیل رہے ہیں یہ حکومت کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں بلکہ بن رہے ہیں، عمران خان تو قوم کو خط ِ افلاس میں مبتلا کرکے محض ایک خط دکھا کر میدان میں نکل پڑے ہیں، شہباز شریف کو خط ِ افلاس کے چیلنج کا سامنا ہے انہیں قوم کو خط ِ افلاس سے باہر نکالنا ہوگا تب کہیں جا کر وہ عوام میں ووٹ کے لیے جاسکیں گے، ایک وقتی لیڈر نہیں بلکہ رہنماء بننے کے لیے سوچیں اور اینٹ سے اینٹ کھڑکانے کا دعویٰ کرنے والوں سے بچ کر رہیں، دکھاوے کے بجائے عملی کام کرکرکے عزت کمائیں ورنہ سارے بیانیے ہوا ہو جائیں گے۔
ایک آخری بات… توشہ خانہ کیس کا معاملہ اس وقت بحث کا موضوع بنا ہوا ہے شہباز شریف کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف قواعد و ضوابط کے برعکس14 کروڑ روپے میں دبئی میں فروخت کیے۔ ان تحائف میں قیمتی اشیاء جن میں گھڑیاں، ڈائمنڈ جیولری، بریسلٹ اور دیگر زیورات شامل ہیں، وزیر اعظم کی بات میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے مزید گرہ لگائی کہ توشہ خانہ سے گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف بھی غائب ہے، فواد چودھری نے جواب دیا ہے حکومت خوامخواہ ایک ایسے معاملے کو اسکینڈل بنانے کی کوشش کر رہی ہے جو قواعد کے مطابق ختم ہو چکا ہے مریم نواز نے اپنے ٹویٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ عمران خان نے اتنی مہنگی چیزیں توشہ خانے سے کیسے خریدیں۔ وزیراعظم کی تنخواہ کے سوا اُن کا ذریعہ آمدن کیا تھا خلاصہ یہ ہے کہ بیرون ملک سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے جاتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک ان تحائف کی مارکیٹ ویلیو کا تعین کرتا ہے، نیلامی کی صورت میں دوبارہ قیمت کا تعین ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کرتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ اس معاملے میں یہ طریقۂ کار اپنایا گیا؟ بہتر یہی ہے کہ یہ معاملہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے قانون قاعدے کی نظر سے دیکھا جائے سابق وزیراعظم عمران خان ہمیشہ حکمرانوں کے لیے اعلیٰ اخلاقی ضابطوں کی پابندی پر زور دیتے رہے ہیں۔ وہ اپنے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں اپنے مخالفوں پر طرح طرح کے الزامات لگا کر انہیں خائن اور بددیانت قرار دیتے رہے کہ انہوں نے قومی خزانہ لوٹا اور بیرون ملک اثاثے بنائے اس تناظر میں جب توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات سامنے آتی ہیں تو یقینا حیرت ہوتی ہے عمران خان نے توشہ خانہ سے جو قیمتی اشیاء قاعدے کے مطابق لیں تو کوئی ڈر خوف نہیں اور اہم نکتہ یہ کہ کیا وہ انہیں فروخت کرسکتے تھے؟ تحریک انصاف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے گھڑی کے معاملے میں ان کی لیڈر شپ کے اس بیانیے کو دھچکا لگا ہے جو وہ اعلیٰ سیاسی اخلاق کے حوالے سے رکھتے ہیں بہتر تو یہ ہو گا کہ وہ خود اس کی وضاحت کریں، صرف فواد چودھری کے اس بیان سے یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ سے تحائف خریدے اور اپنی مرضی سے بیج دیے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔